resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: والدہ کے ساتھ مکان خریدنے میں بیوہ بیٹی کے پیسے ملانا، نیز نانی کا نواسے/نواسیوں پر خرچ کرنا(22627-No)

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وراثت کے اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بیوہ خاتون نے اپنا مکان بیچ کرحاصل شدہ رقم اپنی والدہ کے ساتھ مکان خریدنے میں ملا دی اور اپنی والدہ کے ساتھ اسی گھر میں رہنے لگیں, پھر کافی عرصے بعد والدہ کا انتقال ہوگیا، معلوم یہ کرنا ہے کہ والدہ کی میراث تقسیم کرتے وقت بیٹی کو وہ رقم دی جائے گی جو اس نے مکان خریدنے میں لگائی تھی؟ نیز ماموں کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ وہ رقم بہن کے بچوں کی پرورش میں لگ گئی؟ جزاک اللہ خیرا

جواب: واضح رہے کہ اگر بیٹی نے قرض کی صراحت کے ساتھ اپنی والدہ کے ساتھ مکان خریدنے میں رقم ملائی ہو تو اتنی رقم بیٹی کو واپس ملے گی اور اگر بیٹی نے شراکت کی صراحت کے ساتھ پیسے دیے تھے تو اپنے پیسوں کے فیصد کے بقدر
اس مکان میں شریک ہوگی اور اگر قرض یا شراکت کی صراحت کے بغیر اپنی والدہ کے ساتھ معاونت کرنے لیے تبرعاً بطورِ ہدیہ (Gift) دیے تھے تو ایسی صورت میں بیٹی کو وہ پیسے واپس نہیں ملیں گے۔
نیز واضح رہے کہ اگر نانی نے بیٹی کے پیسے اپنے نواسے/ نواسیوں پر بیٹی کی اجازت سے اس بات کی صراحت کے ساتھ خرچ کیے ہوں کہ جو پیسے تم نے مکان خریدنے کے لیے دیے ہیں، ان پیسوں کو تمہارے بچوں پر خرچ کررہی ہوں تو اس صورت میں نانی یا ان کے انتقال کے بعد ورثاء اس رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں، اور اگر انہوں نے اس بات کی صراحت اور بیٹی کی رضا کے بغیر خرچہ کیا ہے تو اس صورت میں کیا گیا خرچہ تبرع (احسان) سمجھا جائے گا، اور نانی یا ان کے ورثاء کو بیٹی سے خرچہ وصول کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (کتاب الأیمان، 3/ 789، ط: دار الفکر)
مطلب في قولهم الديون تقضى بأمثالها
قلت: والجواب الواضح أن يقال قد قالوا إن الديون تقضى بأمثالها


الدر المختار: (5/ 161، ط: دار الفکر)
القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة.

(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك (لا في غيره) من القيميات كحيوان وحطب وعقار وكل متفاوت لتعذر رد المثل... (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا ... الخ )

الهندية: (301/2، ط: دار الفكر)
الشركة نوعان شركة ملك وهي أن يتملك رجلان شيئا من غير عقد الشركة بينهما، كذا في التهذيب.. وشركة الملك نوعان: شركة جبر، وشركة اختيار ... وشركة الاختيار أن يوهب لهما مال أو يملكا مالا باستيلاء أو يخلطا مالهما، كذا في الذخيرة أو يملكا مالا بالشراء أو بالصدقة، كذا في فتاوى قاضي خان أو يوصى لهما فيقبلان، كذا في الاختيار شرح المختار، وركنها اجتماع النصيبين، وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك..الخ

تنقیح الفتاوی الحامدیة: (کتاب الکفالة، 288/1، ط: دار المعرفة)
"المتبرع ‌لا ‌يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

العنایة: (189/7، ط:دار الفكر)
لأنه متبرع بأدائه والمتبرع لا يرجع.

رد المحتار: (594/3، ط: دار الفکر)
مطلب لا تصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا:
قوله ( والنفقة لا تصير دينا الخ ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة۔

البحر الرائق: (باب النفقة، 316/4، ط: رشیدیة)
(قوله ولا تجب نفقة مضت إلا بالقضاء أو الرضا) ؛ لأن النفقة صلة وليست بعوض عندنا فلم يستحكم الوجوب فيها إلا بالقضاء كالهبة لا توجب الملك فيها إلا بمؤكد وهو القبض والصلح بمنزلة القضاء؛ لأن ولايته على نفسه أقوى من ولاية القاضي بخلاف المهر؛ لأنه عوض البضع والمراد بعدم وجوبها عدم كونها دينا عليه فلا تكون دينا عليه يطالب به ويحبس عليه إلا بإحدى هذين الشيئين فحينئذ تصير دينا عليه فتأخذه منه جبرا سواء كان غائبا أو حاضرا سواء أكلت من مال نفسها أو استدانت وأطلق المصنف فشمل المدة القليلة لكن ذكر في الغاية أن نفقة ما دون الشهر لا تسقط وعزاه إلى الذخيرة فكأنه جعل القليل مما لا يمكن التحرز عنه إذ لو سقطت بمضي اليسير من المدة لما تمكنت من الأخذ أصلا اه.
والمراد بالرضا اصطلاحهما على قدر معين للنفقة إما أصنافا أو دراهم؛ ولذا عبر الحدادي بالفرض والتقدير فإذا فرض لها الزوج شيئا معينا كل يوم، ثم مضت مدة فإنها لا تسقط فهذا هو المراد بقولهم أو الرضا، وأما ما توهمه بعض حنفية العصر من أن المراد بالرضا أنه إذا مضت مدة بغير فرض ولا رضا، ثم رضي الزوج بشيء فإنه يلزمه فخطأ ظاهر لا يفهمه من له أدنى تأمل.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster