سوال:
مفتی صاحب! ایک صاحب فرما رہے تھے کہ قبر دو طرح سے بنتی ہے، ایک لحدی (بغلی) کہلاتی ہے اور دوسری صندوقچی قبر کہلاتی ہے، ہمارے ہاں جو قبر رائج ہے، وہ صحیح نہیں ہے، براہ کرم آپ ان قبروں سے متعلق رہنمائی فرمائیے گا کہ یہ دونوں قبریں کس طرح بنتی ہیں اور کیا واقعی ہمارے ہاں رائج قبریں صحیح نہیں ہیں؟
جواب: قبر کی لمبائی میت کے قد سے قدرے زیادہ ہونی چاہیے، اور چوڑائی میت کے نصف قد کے برابر ہونی چاہیے، جبکہ قبر کی گہرائی میت کے نصف قد سے لیکر پورے قد کے برابر رکھی جاسکتی ہے، البتہ گہرائی کا زیادہ ہونا بہتر ہے۔
قبر بنانے کے دو طریقے منقول ہیں:
1) لحد، جسے بغلی قبر بھی کہتے ہیں۔
2) شق، جسے صندوقچی قبر بھی کہا جاتا ہے۔
بغلی قبر بنانے کا طریقہ:
لحد والی قبر بنانے کے لیے پہلے مذکورہ بالا پیمائش کے مطابق ایک قبر کھودیں، پھر قبر کے اندر قبلہ کی سمت میں میت کے حساب سے ایک گڑھا بناکر میت کو اس میں لٹادیں، اس گڑھے کی کھلے ہوئے جانب کو بانس یا کچی اینٹوں سے بند کرکے باقی قبر میں مٹی بھر دیں۔
واضح رہے کہ پختہ زمین جس کے بیٹھنے کا اندیشہ نہ ہو، وہاں لحد والی قبر بنانا سنت اور افضل ہے۔
صندوقچی قبر بنانے کا طریقہ:
سب سے پہلے مذکورہ بالا طریقہ کار کے مطابق ایک قبر بنائیں، اس کے بعد اس قبر کے بیچ میں صندوق نما ایک اور گڑھا بناکر اس میں میت کو لٹادیں اور اس گڈھے کے اوپر بانس وغیرہ سے بند کردیں اور اوپر سے مٹی ڈال دیں۔
مختلف علاقوں میں زمین کی نوعیت کے حساب سے صندوقچی قبر کی مختلف شکلیں رائج ہیں، البتہ مستحب اور بہتر طریقہ وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1045، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن ابن عباس، قال، قال النبي صلى الله عليه وسلم: "اللحد لنا والشق لغيرنا"۔
رد المحتار: (234/2، ط: سعید)
(قَوْلُهُ مِقْدَارُ نِصْفِ قَامَةٍ إلَخْ) أَوْ إلَى حَدِّ الصَّدْرِ، وَإِنْ زَادَ إلَى مِقْدَارِ قَامَةٍ فَهُوَ أَحْسَنُ كَمَا فِي الذَّخِيرَةِ، فَعُلِمَ أَنَّ الْأَدْنَى نِصْفُ الْقَامَةِ وَالْأَعْلَى الْقَامَةُ، وَمَا بَيْنَهُمَا شَرْحُ الْمُنْيَةِ، وَهَذَا حَدُّ الْعُمْقِ، وَالْمَقْصُودُ مِنْهُ الْمُبَالَغَةُ فِي مَنْعِ الرَّائِحَةِ وَنَبْشِ السِّبَاعِ. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ: وَطُولُهُ عَلَى قَدْرِ طُولِ الْمَيِّتِ، وَعَرْضُهُ عَلَى قَدْرِ نِصْفِ طُولِهِ (قَوْلُهُ: وَيُلْحَدُ) لِأَنَّهُ السُّنَّةُ وَصِفَتُهُ أَنْ يُحْفَرَ الْقَبْرُ ثُمَّ يُحْفَرَ فِي جَانِبِ الْقِبْلَةِ مِنْهُ حَفِيرَةٌ فَيُوضَعُ فِيهَا الْمَيِّتُ وَيُجْعَلُ ذَلِكَ كَالْبَيْتِ الْمُسْقَفِ حِلْيَةٌ (قَوْلُهُ وَلَا يُشَقُّ) وَصِفَتُهُ أَنْ يُحْفَرَ فِي وَسَطِ الْقَبْرِ حَفِيرَةٌ فَيُوضَعُ فِيهَا الْمَيِّتُ حِلْيَةٌ (قَوْلُهُ إلَّا فِي أَرْضٍ رَخْوَةٍ) فَيُخَيَّرُ بَيْنَ الشِّقِّ وَاِتِّخَاذِ تَابُوتٍ ط عَنْ الدُّرِّ الْمُنْتَقَى، وَمِثْلُهُ فِي النَّهْرِ۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی