resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: قصاص اور دیت کا مطلب اور حکم (22647-No)

سوال: مفتی صاحب! شریعت میں قصاص اور دیت سے کیا مراد ہے اور اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: شریعت کی اصطلاح میں کسی شخص کو جسمانی ایذا یا قتل کردینے کی وجہ سے مجرم کو وہی سزا دینے کا نام "قصاص" ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ: "اے ایمان والو ! جو لوگ (جان بوجھ کر ناحق) قتل کر دئیے جائیں ان کے بارے میں تم پر قصاص (کا حکم) فرض کردیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ( ہی کو قتل کیا جائے) ، پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی) یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو معروف طریقے کے مطابق (خوں بہا کا) مطالبہ کرنا (وارث کا) حق ہے، اور اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا ( قاتل کا) فرض ہے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک آسانی پیدا کی گئی ہے اور ایک رحمت ہے، اس کے بعد بھی کوئی زیادتی کرے تو وہ دردناک عذاب کا مستحق ہے"۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر: 178، آسان ترجمہ قرآن)
اسی طرح سورة المائدہ، آیت نمبر: 45 میں اعضاء انسانی کے بدلے قصاص کا حکم مذکور ہے:
ترجمہ: "اور ہم نے اس (تورات میں) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت۔ اور زخموں کا بھی (اسی طرح) بدلہ لیا جائے۔ ہاں جو شخص اس (بدلے) کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ ظالم ہیں"۔ (آسان ترجمہ قرآن)
دیت : مکمل ہلاکت یا کسی ایسے نقصان کا تاوان "دیت" ہے، جس کو شریعت نے قتل و ہلاکت ہی کے حکم میں رکھا ہے۔
ہلاکت کی درج ذیل صورتوں میں دیت واجب ہوتی ہے:
1) کسی شخص کو خطاء قتل کر دیا ہو، مثلاً کسی اور شئ پر نشانہ کر رہا تھا اور گولی کسی آدمی کو جا لگی۔
2) "قتل شبہ عمد" کی صورت پیش آئی ہو، یعنی کسی ایسے ہتھیار سے وار کیا جس سے عموماً ہلاکت واقع نہیں ہوتی، مگر اتفاقاً ہلاکت واقع ہو گئی۔
3) کوئی شخص بالواسطہ مقتول کی ہلاکت کا باعث بنا ہو۔
4) بچے یا مجنون نے کسی ہلاک کر دیا ہو۔
ان تمام صورتوں میں تو اصالۃً ہی دیت واجب ہوتی ہے، لیکن اگر قتل عمد کا واقعہ ہو اور مقتول کے ورثہ دیت لینے اور قاتل کے ورثہ دیت ادا کرنے پر راضی ہو جائیں تو اس صورت میں بھی دیت واجب ہوتی ہے۔
انسان کا جمال اور اس کی ساخت میں تناسب و توازن سے محرومی کو بھی فقہاء نے اسی حکم میں رکھا ہے۔ شمار کرنے والوں نے بیس سے زیادہ جسمانی منافع شمار کرائے ہیں۔ ان میں کچھ اہم یہ ہیں: عقل، سماعت، بصارت، شامہ (سونگھنے کی صلاحیت) آواز، چکھنے کی صلاحیت، چبانے کی صلاحیت، جماع، حمل، افزائش منی، پکڑ، رفتار، بالوں کا وجود وغیرہ، ان صلاحیتوں کو ضائع کر دینے کی صورت میں جہاں قصاص واجب کرنا ممکن ہو، وہاں قصاص واجب ہوگا، ورنہ مکمل دیت واجب ہوگی۔
(ماخوذ از قاموس الفقہ، 437/3، 442، ط: زمزم پبلشرز)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 178)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَه مِنۡ اَخِیۡہه شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡه بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَة ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ o

الھندیة: (24/6، ط: دار الفکر)
الدية المال الذي هو بدل النفس والأرش اسم للواجب بالجناية على ما دون النفس كذا في الكافي.
ثم الدية تجب في قتل الخطأ، وما جرى مجراه، وفي شبه العمد، وفي القتل بسبب، وفي قتل الصبي والمجنون وهذه الديات كلها على العاقلة إلا في قتل الأب ابنه عمدا فإنها في ماله في ثلاث سنين، ولا تجب على العاقلة كذا في الجوهرة النيرة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

qasas aur diyat ka matlab or hukam

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals