resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: نافرمان بیٹے کو عاق کرنے کے بجائے اس کی ضرورت کے بقدر دینا(22677-No)

سوال: ایک باپ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بیٹی بیوہ ہے، اس کی دو بچیاں ہیں اور وہ باپ کے پاس رہتی ہیں باپ ہی ان کا خرچ اٹھاتا ہے۔ ایک بیٹا بہت نافرمان ہے، ہر بات پر جھگڑا کرتا ہے اور ہر بار اپنا حصہ مانگتا ہے جبکہ ابھی والد بھی زندہ ہے، والد اسے ابھی تک اپنی کمائی سے اس کا پورا حق دیتا ہے، اس نافرمان بیٹے کے 3 بچے ہیں، اب یہ مشترکہ گھر میں ایک اور لڑکی سے شادی کر کے لے آیا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے میرا حصہ دو، گھر بیچو اور میری زمیں جو کہ گاوں میں ہے اسے بھی بیچو، اس زمین کی کمائی بھی نافرمان بیٹا لیتا ہے، دوسری کوئی بھی اولاد حصہ نہیں نہیں لیتی، خود والد گھر چلاتا ہے، نافرمان بیٹا گھر کے خرچے میں حصہ نہیں لیتا جیسا کہ بل وغیرہ. ایک مشترکہ دوکان ہے، اس سے کرایہ لیتا اور خود رکھ لیتا ہے. اب اگر باپ اپنی جائیداد باقی اولاد کے نام کردے اس لئے کہ وہ نافرمان بیٹابیچ نہ سکے اور اس کی اولاد کے لئے ٣ بچوں کے لیے بچ جائے تو کیا شرعی طور پر باپ ( مالک ) اپنی مرضی سے جائیداد تقسیم کر سکتا ہے؟ اس بیٹے کو اتنا حصہ اور دوسرے نافرمان بیٹے کو کم یا بلکل نہ دے، باقی سارے گھر والے آپس میں خوش ہیں اور صحیح رہتے ہیں۔ مہربانی فرما کر جواب دے دیں۔

جواب: واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں وراثت کا حق موت کے بعد لازم ہوتا ہے، والد کی زندگی میں والد کی جائیداد وغیرہ میں بیٹے کو حصے کا مطالبہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح اگر باپ کسی بیٹے کو عاق کردے تو وہ میراث سے محروم نہیں ہوگا، بلکہ عاق شدہ بیٹے کو بھی والد کی میراث میں سے اس کا شرعی حصہ ملے گا۔
تاہم اگر والد کو یہ اندیشہ ہو کہ نافرمان بیٹا دوسرے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں دے گا تو والد اپنی زندگی میں بچوں کو مالکانہ تصرف اور قبضہ کے ساتھ کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، زندگی میں باپ کی طرف سے اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ(گفٹ) ہوتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے، لیکن اگر وہ کسی بچے کو کسی معقول وجہ سے زیادہ دے دے، (مثلا اولاد میں سے کوئی زیادہ غریب یا زیادہ خدمت گزار ہو یا علم دین میں مشغول ہو یا اور کوئی دوسری وجہ فضیلت ہو) تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا، اسی طرح نافرمان بچے کو بالکل محروم کرنے کے بجائے اس کی ضرورت کے بقدر دینے سے بھی گناہ گار نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (364/9، ط: دار الکتب العلمیة)
قال مشائخ بلخ: الإرث یثبت بعد موت المورث۔

رد المحتار: (کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی، 505/7، ط: سعید)
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط.

بدائع الصنائع: (كتاب الهبة، 127/6، ط: دار الكتب العلمية)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9]
(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

عمدة القاري: (کتاب الھبة، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster