سوال:
ایک صاحب یہ فرما رہے تھے کہ بچوں کو پارسی یا ان جیسے اور اسکولوں میں پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس پر یہ دلیل دے رہے تھے کہ پیارے نبی ﷺ نے ایک جنگ میں کافروں کو قید فرمایا اور رہائی کی ایک شرط مقرر فرمائی کہ وہ مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ کیا ان صاحب کا یہ جواز درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ہمارے دین اسلام نے تعلیم کو بہت اہمیت دی ہے، سب سے پہلی وحی جو نازل ہوئی، وہ " إقرء باسم ربك الذي خلق" تھی، (پڑھ اپنے رب کا نام لے کر جس نے تمہیں پیدا کیا)
اس وحی سے جہاں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر فرمایا گیا ہے، وہیں ساتھ یہ بھی ذکر ہے کہ پڑھنا لکھنا اپنے رب کے نام کے ساتھ ہونا چاہیے، لہذا کوئی بھی علم حاصل کرنے سے پہلے اس بات کا اطمئنان کر لینا ضروری ہے کہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کا ایمان و دین محفوظ رہے گا، عموما غیر مسلم اسکولوں میں تعلیم پانے والے بچے دین سے دور ہو جاتے ہیں، بلکہ بعضوں کا ایمان بھی محفوظ نہیں رہتا، بوجہ اس کے کہ اسکول کی انتظامیہ غیر مسلم ہوتی ہے، وہ بچوں کو تعلیم کی آڑ میں اپنے عقائد و نظریات سکھاتی ہے، بچہ غیر شعوری طور پر ان کے نظریات کو سیکھ کر اپنے دین سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
جہاں تک قیدیوں سے تعلیم دلوانے کے واقعہ کا تعلق ہے، سو اس واقعہ کا پس منظر سمجھے بغیر اس سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
اس واقعے کی حقیقت یہ ہے کہ قیدیوں کو اصل حکم تھا کہ وہ حسب حیثیت ایک ہزار درھم سے چار ہزار دراھم تک فدیے میں دے کر آزادی حاصل کر لیں، لہذا جو قیدی فدیہ دے سکے وہ آزاد ہو گئے اور جو فدیہ نہیں ادا کرسکتے تھے وہ بلا فدیہ آزاد کردیے گئے، لیکن ان میں سے جو لکھنا جانتے تھے، ان کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا سکھا دیں تو آزاد ہوں گے۔ (ماخذہ باختصار: سیرت المصطفی ﷺ: ۲/ ۴۷۶ مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاھور)
مذکورہ واقعہ سے مندرجہ ذیل وجوھات کی بنا پر استدلال نہیں کیا جاسکتا:
۱) یہ تعلیم قیدیوں سے دلوائی گئی تھی اور قیدی مغلوب ہوتا ہے، قیدی کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا کہ وہ ہمارے عقائد و نظریات کے بر خلاف ہو، یا ہمارے مزاج کے خلاف ہو۔
اس تناظر میں ہم کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ قیدی مسلمانوں کے بچوں کے عقائد بگاڑ سکتے تھے؟ جبکہ آج کل غیر مسلموں کے اسکول میں تعلیم دینے والے لوگ ہمارے ماتحت نہیں ہوتے، بلکہ کسی درجے میں ہم ان کے سامنے مجبور ہوتے ہیں، ایسی صورت میں اپنے بچوں کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑنا دانشمندی نہیں ہے،لہذا ہم اپنے بچوں کے دین وایمان کے حوالے سے بے فکر نہیں ہو سکتے۔
۲) قیدیوں سے ضرورتا لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوائی گئی تھی، مسلمانوں کے پاس اس کا کوئی اور متبادل انتظام نہیں تھا، کیونکہ ابتدائی دور میں لکھنے پڑھنے والے لوگ مسلمانوں میں کم تھے، اس مجبوری کے پیش نظر اسلام نے محض تعلیم کی اہمیت کی خاطر یہ گوارا کیا کہ جن سے جہاد کیا گیا تھا اور جن سے قتال کیا گیا تھا، ان پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ان سے تعلیم دلوائی گئی، جبکہ ہمارے ہاں غیر مسلموں کے متبادل مسلمانوں کے تعلیمی ادارے موجود ہیں، وہاں بھی ان عصری علوم کی تعلیم ہوتی ہے، جن کی غیر مسلموں کے اداروں میں ہوتی ہے، لہذا مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ہونے کے باوجود اور وہاں سے تعلیمی ضرورت پوری ہوسکنے کے باوجود، اپنے بچوں کو غیر مسلموں کی تعلیم گاہوں میں بھیجنا ان کے ایمان و عقیدے کو غیر محفوظ کرنے کے مترادف ہے۔
ہاں ! اگر مجبوری ہو کہ غیر مسلموں سے تعلیم حاصل کرنے کا کوئی اور متبادل نہ ہو تو درج ذیل شرائط کے ساتھ ان سے تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش ہے:
الف) ایسا علم سیکھنا جو مسلمانوں کی ضرورت ہے اور اس کے ماہر مسلمانوں میں نہیں ہیں۔
ب) ایسی جگہ رہائش ہو جہاں اکثر آبادی غیرمسلموں کی ہو۔
ج) والدین خود لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں اور آس پاس کوئی تعلیم یافتہ مسلمان نہ ہوں جن سے تعلیم دلوائی جا سکے۔
د) مجبوری کے تحت بچے کو غیر مسلموں کے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جائے تو اس کو دینی علوم سے غافل نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے دین و ایمان، اخلاق و کردار کی خوب نگرانی کی جائے۔
نیز مذکورہ بالا شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی، اگر وہاں پڑھنے والے کا ایمان و عقیدہ غیر محفوظ ہونے لگے، تو ایسی صورت میں اس تعلیمی ادارے میں پڑھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایمان ہی اصل متاع ہے، دنیا کے لیے اپنے ایمان کو لٹوانا سب سے بڑی بے وقوفی اور نقصان کا سبب ہے،کیونکہ اگر ایمان ہی لٹ جائے تو آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (العلق، الآیۃ: 1)
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚo
و قولہ تعالی: (التحریم، الآیۃ: 6)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَo
تفسیر القرطبی: (195/18، ط: دار الکتب المصریة)
فعلى الرجل أن يصلح نفسه بالطاعة، ويصلح أهله إصلاح الراعي للرعية. ففي صحيح الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته فالإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عنهم والرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عنهم (. وعن هذا عبر الحسن في هذه الآية بقوله: يأمرهم وينهاهم. وقال بعض العلماء لما قال: قوا أنفسكم دخل فيه الأولاد، لأن الولد بعض منه. كما دخل في قوله تعالى: ولا على أنفسكم أن تأكلوا من بيوتكم «1» [النور: 61] فلم يفردوا بالذكر إفراد سائر القرابات. فيعلمه الحلال والحرام، ويجنبه المعاصي والآثام، إلى غير ذلك من الأحكام. وقال عليه السلام: (حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويعلمه الكتابة ويزوجه إذا بلغ). وقال عليه السلام: (ما نحل والد ولدا أفضل من أدب حسن). وقد روى عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم (مروا أبناءكم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع). خرجه جماعة من أهل الحديث. وهذا لفظ أبي داود.
سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 224، ط: دار احیاء الکتب العربیة)
عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طلب العلم فريضة على كل مسلم، وواضع العلم عند غير أهله كمقلد الخنازير الجوهر واللؤلؤ والذهب»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی