سوال:
ایک عورت کو سات دن حیض کی عادت تھی، اس نے چھوٹے چھوٹے بچوں کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے وقفہ کرایا ہے جب سے وقفے والا ٹانکہ رکھوایا ہے تب سے اس کی ترتیب کچھ یوں ہوگئی ہے، شروع میں تقریبا 19 یا 20 دن کے بعد کچھ مٹیالی لیکوریا کی شکل میں شروع ہو جاتی ہے، یہ تقریبا چار سے پانچ دن تک ہوتی ہے اس دوران وہ مٹیالی کبھی تھوڑی گھیری اور کبھی ہلکی ہو جاتی ہے اور کبھی بالکل سفیدی بھی ہو جاتی ہے، پھر تقریبا تین دن کے بعد ہلکا خون ٹپکنے والا آہستہ آہستہ اہستہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر جس طرح حیض آتا تھا ایسے ہوتا ہے اور یہ عمل تقریبا سات سے آٹھ دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کون سے دن حیض کے شمار ہوں گے اور شروع کے چند دنوں میں ہلکی مٹیالی رہتی ہے ان دنوں میں شوہر کے پاس جا سکتی ہے یا نہیں؟ جب وقفہ یعنی ٹانکہ نکال دیا جاتا ہے تب وہی کنواری پن والی ترتیب ہوتی ہے یعنی شروع میں چھ سے آٹھ دن کی ترتیب ہوتی ہے آیا اس میں مٹیالی والے شروع کے تقریبا پانچ دن کی حیض شمار ہوں گے یا پھر اخری سات سے آٹھ دن جن میں صحیح طریقے سے خون آتا ہے وہ حیض شمار ہوگا؟
تنقیح: محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ ٹانکا رکھوانے سے پہلے مذکورہ عورت کو پاکی کے کتنے دن گزرنے کے بعد ماہواری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح: ٹانکہ رکھوانے سے پہلے ماہواری بیس دن بعد آتی تھی اور اب تقریباً پندرہ دن بعد نشان لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں عادت کے مطابق ماہواری کا سلسلہ شروع ہونے سے چار پانچ دن تک مٹیالے رنگ کا آنے والا خون استحاضہ کا شمار ہوگا، اور اس کے بعد آنے والا خون حیض کا شمار ہوگا، لہذا مٹیالے رنگ کے خون کے آنے کے دنوں میں مذکورہ عورت پاک رہے گی، اس دوران نماز وغیرہ عبادات کی ادائیگی اس کے لیے لازم ہوگی اور اس دوران شوہر اس سے ہمبستری بھی کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
فی الفتاویٰ الھندیۃ: (39/1، ط: دار الفکر )
فإن رأت بين طهرين تامين دما لا على عادتها بالزيادة أو النقصان أو بالتقدم والتأخر أو بهما معا انتقلت العادة إلى أيام دمها حقيقيا كان الدم أو حكميا هذا إذا لم يجاوز العشرة فإن جاوزها فمعروفتها حيض وما رأت على غيرها استحاضة فلا تنتقل العادة هكذا في محيط السرخسي.
الفتاوى التاتارخانية: (510/1، ط: مكتبة زكريا)
١٣٦٦ :والوجه الرابع: إذا رأت في أيامها ما يصلح أن يكون حيضا ورأت قبل أيامها ما يصلح أن يكون حيضا ولم يجاوز الكل العشرة، ففي هذا الوجه عند أبي حنيفة رويتان، روى محمد والحسن بن زياد رحمهما الله أن المتقدم على أيامها لا يكون حيضا، وروى بشر بن الوليد والمعلى وغيرهما عن أبي يوسف رحمه الله أن المتقدم حيض، غير أن في بعض روايات أبي يوسف أنه قول أبي حنيفة، وفي بعض رواياته أنه قياس قول أبي حنيفة، وفي الحجة فما رأت في أيامها حيض في قولهم جميعا، وما رأت قبل أيامها ففى رواية أبي يوسف عن أبي حنيفة كلاهما حيض، وفي رواية محمد عنه موقوف حتى ترى في الشهر الثاني مثله وعلى قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله المتقدم حيض إذا لم يجاوز العشرة ثم عند أبي يوسف يصير ذلك عادة لها، وعند محمد لا يصير عادة لها، وفي الينابيع: المرئي في عادتها يكون حيضا بالإجماع.
وفیه ایضا: (474/1، ط: مكتبة زكريا )
وكان الشيخ أبو منصور الماتريدي رحمه الله مرة يقول في الصفرة: إذا رأتها ابتداء في زمان الحيض إنها حيض، وأما إذا رأتها في زمان الطهر واتصل ذلك بزمان الحيض، فإنها لا تكون حيضا، ومرة يقول: إذا اعتادت المرأة أن ترى أيام الطهر صفرة وأيام الحيض حمرة فحكم صفرتها يكون حكم الطهر حتى لو امتدت هي بها لم يحكم لها بالحيض في شيء في هذه الصفرة، وحكمها حكم الطهر على قول أكثر المشايخ رحمهم الله.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی