resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کھیل کود کے جائز اور ناجائز ہونے کا شرعی ضابطہ (22698-No)

سوال: مفتی صاحب! اسلام میں کس حد تک کھیل کود کرنے کی اجازت ہے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟ کھیل کود کے شرعی احکام سے متعلق رہنمائی فرمادیں۔

جواب: شریعت مطہرہ نے انسان کی تفریح اور کھیل کود کے فطری جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بعض کھیلوں کی اجازت دی ہے، بلکہ جن کا دنیوی یا اخروی نفع انسان کے لیے غالب تھا، ایسے کھیل کھیلنے کی ترغیب بھی دی ہے، چنانچہ گھڑ سواری، تیراکی، تیر اندازی وغیرہ سیکھنے کی احادیث مبارکہ میں ترغیب آئی ہے۔
لیکن شریعت مطہرہ نے کھیل کود میں اس قدر انہماک اور مشغولیت کو ناپسندیدہ اور ممنوع قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے انسان اپنے دنیوی یا اخروی فرائض منصبی کو بھول جائے یا ان میں کوتاہی کرنے لگے۔
کھیل کود کے بارے میں شرعی ضابطہ ذیل میں تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے:
1) وہ تمام کھیل جن میں کسی قسم کا دنیوی یا اخروی فائدہ نہ ہو یا احادیث مبارکہ میں ان کی ممانعت آئی ہو جیسے: شطرنج، کبوتر بازی، جانوروں کو لڑانا وغیرہ تو ایسے کھیل کھیلنا شرعاً ممنوع ہے۔
2) وہ کھیل جو کسی قسم کا دنیوی یا اخروی فائدہ رکھتے ہوں اور شرعاً وہ ممنوع بھی نہ ہوں اور نہ ہی ان کا ضرر ان کے فائدے پر غالب ہو اور ان میں اس قدر انہماک بھی نہ ہو کہ جس سے فرائض منصبی میں کوتاہی ہونے لگے تو دنیوی یا اخروی فائدے کی غرض سے ایسے کھیل کھیلنا شرعاً جائز ہے۔
3) لیکن جن کھیلوں میں انہماک اس قدر ہو جاتا ہو کہ فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی ہو یا ان کا ضرر ان کے فائدے پر غالب ہو تو ایسے کھیل باوجود کسی قدر فائدہ مند ہونے کے کھیلنا شرعاً مکروہ اور ناجائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

تكملة فتح الملهم: (٤/٢٥٧، ط: دار العلوم كراتشي)
فالضابط في هذا الباب -عند مشايخنا الحنفية- المستفاد من أصولهم وأقوالهم... أن الله‍و المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولاالمعاد : حرام أو مكروه تحريما. وهذا أمر مجمع عليه في الأمة، متفق عليه بين الأئمة. وما كان فيه غرض ومصلحة دينيه أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة. (كما في النردشير) كان حراما، أو مكروها تحريما، وألغيت تلك المصلحة والغرض لمعارضتها للنهي المأثور، حكما بأن ضرره اعظم من نفعه...
(وأما لم يرد فيه النهي عن الشارع، وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الاول :ما شهدت التجربة بان ضرره أعظم من نفعه، و مفاسده أغلب على منافعه، وأنه من إشتغل به الهاه عن ذكر الله وحده، وعن الصلوات والمساجد : التحق ذلك بالمنهي عنه، لاشتراك العلة، فكان حراما او مكروها.)
(والثاني ما ليس كذلك فهو أيضا إن شتغل به بنية التلاهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح بل قد يرتقي الى درجة الإستحباب أو أعظم منه.)
هذه خلاصة ما توصل إليه والدي الشيخ المفتي محمد شفيع في احكام القران.
وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزه في نفسها ما لم تشتمل على معصيه أخرى ،وما لم يؤدي الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه ودنياه،والله سبحانه أعلم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things