سوال:
ایک شخص اسٹیٹ ایجنسی والے سے کہتا ہے کہ میرا پلاٹ چار لاکھ میں بکوادیں، اس سے زیادہ جتنے میں بھی بکے گا، اضافی رقم آپ کی اجرت ہوگی، اس طرح کا معاملہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں کسی شخص کو یہ کہنا میرا پلاٹ چار لاکھ میں بکوادیں، اس سے زیادہ جتنے میں بھی بکے گا، اضافی رقم آپ کی اجرت (کمیشن) ہوگی، کمیشن ایجنٹ کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنا اصولی طور پر شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں ایجنٹ کی اجرت (کمیشن) واضح طور پر طے نہیں کی گئی ہے، بلکہ مقررہ قیمت سے اضافی رقم کو اجرت قرار دیا گیا ہے اور وہ اضافی اجرت معلوم نہیں ہے کہ کتنی ہوگی، لہذا اس طرح معاملہ کرنا اصولی طور پر فاسد اور غلط ہے۔
اس کا متبادل صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایجنٹ کی ایک متعین رقم کمیشن کے طور پر طے کی جائے یا فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کیا جائے، نیز بنیادی اجرت طے ہونے کے ساتھ اگر اضافی مارجن بھی دیا جائے، تب بھی معاملہ درست ہوجائے گا۔
البتہ سوال میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق کمیشن طے کرنا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک درست ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، نیز آج کل اس کا عرف بھی ہوچکا ہے، اس لئے معاملات میں توسع کے پیش نظر اگر اس طرح کا معاملہ ہوجائے تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، تاہم بہتر طریقہ وہی ہے، جو متبادل کے طور پر اوپر بیان کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب الاجارۃ الفاسدۃ، 47/6، ط: دار الفکر)
إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة
عمدة القاري: (93/12، ط: دار احیاء التراث العلمی)
وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك
هذا التعليق وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس نحوه.
وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به۔ هذا التعليق أيضا وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن يونس عن ابن سيرين، وفي (التلويح) : وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع، وممن كرهه: الثوري والكوفيون، وقال الشافعي ومالك: لا يجوز، فإن باع فله أجر مثله، وأجازه أحمد وإسحاق
النتف في الفتاوى: (575/2، ط: دار الفرقان، موسسة الرسالة، بيروت)
"والْخَامِس اجارة السمسار لايجوز ذَلِك وَكَذَلِكَ لَو قَالَ بِعْ هَذَا الثَّوْب بِعشْرَة دَرَاهِم فَمَا زَاد فَهُوَ لَك وان فعل فَلهُ اجْرِ الْمثل"
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشي: رقم الفتوی: 1593/32
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی