عنوان: نماز وتر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ (2275-No)

سوال: اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
محترم، برائے مہربانی، ایک رکعت وتر کے متعلق رہنمائی فرما دیں، کیا ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے اور درست ہے؟

جواب: واضح رہے کہ نماز وتر کی تعداد رکعات اور طریقہ سے متعلق مختلف روایات ذخیرہ احادیث میں ملتی ہیں، ان تمام روایتوں کے پیش نظر علاّمہ ابن حزم ظاہری نے وتر کی نماز پڑھنے کے ۱۳ طریقے بیان کئے ہیں۔
ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی) نے تمام روایتوں پر اور وتر کے سارے طریقوں پر غور فرما کر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری عمل متعین فرمایا ہے، اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری عمل سے یہی ثابت ہوا کہ آپ نے تین رکعت وتر کی نماز پڑھی اور پڑھائی ہے، اب ائمہ اربعہ کے درمیان صرف اتنا اختلاف ہوا کہ یہ تین رکعت دو سلاموں کے ساتھ ہیں یا ایک سلام کے ساتھ؟
اس بارے میں ائمہ ثلاثہ (امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی) نے تین رکعت وتر دو سلاموں کے ساتھ والی روایات کو اختیار فرمایا ہے، چنانچہ ان کے متبعین اسی طرح تین رکعت وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
جبکہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ان احادیث کو اختیار فرمایا ہے جن میں تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ان کے پیروکار اسی پر عمل کرتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد ذیل میں ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی روایات ذکر کرتے ہیں:

۱- سنن نسائی کی روایت ہے:
أخبرنا یحیی بن موسیٰ قال: أخبرنا عبدالعزیز بن خالد، قال: حدثنا سعید بن أبي عروبۃ عن قتادۃ، عن عزرۃ، عن سعید بن عبدالرحمن بن أبزي، عن أبیہ، عن أبي بن کعب -رضي اﷲ عنہ- قال: "کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وفي الرکعۃ الثانیۃ بقل یا أیہا الکافرون، وفي الثالثۃ بقل ہو اﷲ أحد، ولا یسلم إلا فی آخرہن، ویقول: یعنی بعد التسلیم: سبحان الملک القدوس ثلاثا".
(سنن نسائي، الصلاۃ، باب کیف الوتر بثلاث؟ ۱/ ۱۹۱، رقم: ۷۰۲ دارالسلام)

ترجمہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ ’’سبح اسم ربک الأعلی‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قل یا أیہا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں ’’قل ہو اﷲ أحد‘‘ پڑھا کرتے تھے، اور تینوں رکعت کے آخر میں سلام پھیرتے تھے اور سلام کے بعد تین مرتبہ ’’سبحان الملک القدوس‘‘ پڑھا کرتے تھے۔

۲- شرح معانی الآثار کی روایت ہے:
"عن عائشۃ قالت: کان نبي اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لایسلّم في رکعتي الوتر".
طحاوی ۱/ ۳۶۳ برقم: ۱۶۳۰)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وتر کی نماز میں دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔
۳- مستدرک حاکم کی روایت ہے:
عن عائشۃ قالت: "کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یؤتر بثلاث لایسلّم إلاَّ في آخرہنّ، وہذا وتر أمیر المؤمنین عمر بن الخطابؓ، وعنہ أخذہ أہل المدینۃ".
(المستدرک للحاکم ۲/ ۴۴۱ برقم: ۱۱۴۰)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم وتر کی نماز تین رکعت پڑھا کرتے تھے، اور ان تینوں کے درمیان میں سلام نہیں پھیرتے تھے؛ بلکہ آخر میں سلام پھیرتے تھے، اور یہی امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے وتر تھے، اور انہی سے اہل مدینہ نے اس عمل کو اختیار فرمایا ہے۔
۴- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وتر کی تعلیم :
عن أبي خالدۃ قال: سألت أبا العالیۃ عن الوتر فقال: علمنا أصحاب محمدؐ صلی اﷲ علیہ وسلم، أو علّمونا أن الوتر مثل صلاۃ المغرب غیر أنا نقرأ في الثالثۃ، فہذا وتر اللیل، وہذا وتر النہار۔
(طحاوي: ۱/ ۳۸۲، برقم: ۱۷۰۱)
ترجمہ:
ابو خالدہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالعالیہ سے نماز وتر کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب نے ہم کو وتر کی نماز اس طرح سے سکھائی ہے کہ بے شک وتر کی نماز کی کیفیت نماز مغرب کی کیفیت کی طرح ہے، علاوہ اس کے کہ وتر کی تیسری رکعت میں ہم قرأت کرتے ہیں (مغرب کی تیسری رکعت میں قرأت نہیں کرتے) تو یہ رات کی وتر ہے، اور یہ دن کی وتر ہے۔
۵- مدینہ منورہ کے سات مشہور فقہاء کا وتر پڑھنے کا طریقہ:
عن عبد الرحمٰن بن أبی الزناد عن أبیہ عن السبعۃ سعید بن المسیب وعروۃ بن الزبیر والقاسم بن محمد وأبي بکر بن عبدالرحمن وخارجۃ بن زید وعبید اﷲ بن عبداﷲ وسلیمان بن یسار في مشیخۃ سواہم أہل فقہ وصلاح وفضل، وربما اختلفوا في الشيء فآخذ بقول أکثرہم وأفضلہم رأیا، فکان مما وعیت عنہم علی ہذہ الصفۃ أن الوتر ثلاث لا یسلم إلا في آخرہنّ، فہذا من ذکرنا من فقہاء المدینۃ، وعلمائہم قد أجمعوا أن الوتر ثلاث لا یسلم إلا في آخرہنّ۔ (طحاوي: ۱/ ۳۸۵، برقم: ۱۷۱۶)
ترجمہ:
حضرت عبد الرحمن بن ابی الزناد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں وہ فقہاء سبعہ یعنی
۱- حضرت سعید بن المسیب
۲- عروہ بن الزبیر
۳- قاسم بن محمد
۴- ابو بکر بن عبد الرحمن
۵- خارجہ بن زید
۶- عبیداﷲ بن عبداﷲ بن مسعود
۷- سلیمان بن یسار
ان سب فقہاء اور اہل صلاح اور اہل فضل سے نقل فرماتے ہیں کہ بے شک وترکی نماز تین
رکعت ہے، اور درمیان میں کوئی سلام نہیں صرف اس کے آخر میں سلام پھیرا جائے گا، یہ فقہاء مدینہ اور علماء مدینہ ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، یقینا ان لوگوں کا اتفاق اس بات پر ہے کہ تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ ہے۔

امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کو چند وجوہ سے ترجیح حاصل ہے:
۱- حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین نے ایک سلام سے تین رکعت وتر پڑھنے کو اختیار فرمایا اور اسی پر عمل فرمایا ہے۔
۲- خلفاء راشدینؓ کے علاوہ دیگر صحابہ کرامؓ سے بھی یہی عمل ثابت ہے کہ وہ تین رکعت وتر ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، جن میں حضرت عبداﷲ بن مسعود حضرت انس بن مالک اور حضرت ابی بن کعب رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا عمل واضح طور پر ثابت ہے کہ وہ تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، اور امت کو یہی مسئلہ بتایا کرتے تھے۔
۳- مدینۃ المنورہ میں سات فقہاء تابعین ایسے پیدا ہوئے ہیں، جن کے علم وفضل اور ان کی فقاہت اور دیانت پر تمام امت کا اتفاق ہے، جن کو فقہاء سبعہ (سات فقہاء کرام) سے موسوم کیا جاتا ہے، ان کا
اتفاق بھی اسی پر ہے کہ وتر کی نماز تین رکعت ایک ہی سلام کے ساتھ ہے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3439 Oct 16, 2019
namaz vitar ki kitni rakate / rakaten hein?, How many rak'ahs of Witar prayer?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Taraweeh Prayers

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.