سوال:
ایک سوال پوچھنا ہے وہ یہ کہ میں ایک کار قسطوں پر خریدنا چاہرہا ہوں اور ایک کمپنی قسطوں پر گاڑیاں دیتی ہے، لیکن گاڑی ہم کسی بھی جگہ پر پسند کریں گے اور اس کمپنی کو بتائیں گے، وہ کمپنی وہاں جاکراس شوروم یا فرد سے گاڑی خریدے گی اور جتنے کی گاڑی خریدی گئی، اس پر متعین پرسنٹ ریٹ بڑھا کرہمیں قسطوں پر دیجائیگی، کیا اس طرح گاڑی خریدنا جائز ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر وہ کمپنی آپ کو گاڑی خریدنے کا وکیل بناتی ہے اور آپ کمپنی کی طرف سے وکیل بن کر گاڑی پسند کرتے ہیں، پھر کمپنی اس گاڑی کو اپنے پیسوں سے خریدتی ہے اور اس پر قبضہ بھی کرتی ہے، قبضہ میں آنے کے بعد وہ کمپنی آپ کے ساتھ ازسرنو قسطوں پر فروخت کرنے کا معاہدہ کرتی ہے، تو یہ صورت جائز ہے، بشرطیکہ دوسری شرائط کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، مثلا قسط نہ دینے کی صورت میں جرمانہ وغیرہ نہ عائد کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز".
المجلة: (رقم المادة: 225)
" البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح".
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)
" أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد".
الھدایۃ: (59/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
فصل: "ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه"
لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی