resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ایسی عمارت پر زکوۃ کا حکم جس کے کچھ اپارٹمنٹ رہائش اور کچھ آگے فروخت کرنے کی نیت سے خریدے گئے ہوں (23735-No)

سوال: محترم جناب مفتی صاحب! اللہ سبحانہ و تعالٰی کی ذات عالی سے قوی امید ہے کہ آپ بمعہ اہل و عیال خیر و عافیت سے ہونگے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں ایک رہنمائی درکار ہے کہ ایک شخص اپنی بچت سے ایک نامکمل رہائشی عمارت خریدتا ہے اور اس ارادے سے کہ کچھ عرصے میں اس کی تعمیر مکمل کرکے اس میں کچھ اپارٹمنٹ اپنے ذاتی استعمال رہائش کے طور سے استعمال کریں گے اور بقیہ اپارٹمنٹ مکمل کرکے بیچ دیئے جائیں، تعمیراتی اخراجات کے لئے رقم نا کافی ہے اور اس عمارت کو خریدنے کی مدت ایک سال بھی ہوگئی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب تک اپارٹمنٹ مکمل نہیں ہوتے وہ بیچ نہیں سکتے اور رقم کی بھی قلت ہے، لہذا آپ سے اس اثاثہ پر زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رہنمائی درکار ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے اپنی سہولت دیکھ کر اس درخواست پر غور فرمائیں گے۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: واضح رہے کہ پلاٹ یا فلیٹ پر زکوة کے وجوب سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جو پلاٹ یا فلیٹ تجارت یعنی آگے فروخت کرنے کی نیت سے خریدا جائے تو اُس کی قیمتِ فروخت پر زکوة واجب ہوتی ہے بشرطیکہ اس کی قیمت فروخت از خود یا دیگر قابلِ زکوۃ اموال کے ساتھ ملا کر چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچتی ہو، اور جو پلاٹ یا فلیٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے، اُس پر زکوة واجب نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں عمارت کے جو اپارٹمنٹس اس نیت سے خریدے گئے ہیں کہ ان کا تعمیراتی کام مکمل کر کے انہیں آگے فروخت کیا جائے گا تو سال پورا ہونے پر ان اپارٹمنٹس کی موجودہ حالت میں قیمتِ فروخت پر زکوۃ واجب ہوگی، اگرچہ ان اپارٹمنٹس کا تعمیراتی کام مکمل نہ ہوا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

خلاصة الفتاوی: (251/1، ط: مکتبہ رشیدیہ)
نخاس اشتری دوابا للبیع واشتری لھا جلاجل او براقع او مقاود فان لم یرد بیع ھذہ الاشیاء معھا لم یکن فیھا زکوۃ وان ادار بیعھا ففیھا الزکوۃ.

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي: (1871/3، ط: دار الفكر)
ثالثا تقويم العروض ومقدار الواجب في هذه الزكاة وطريقة التقويم: يقوم التاجر العروض أو البضائع التجارية في آخر كل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزكاة، لا بحسب سعر شرائها، ويخرج الزكاة المطلوبة، وتضم السلع التجارية بعضها إلى بعض عند التقويم ولو اختلفت أجناسها، كثياب وجلود ومواد تموينية، وتجب الزكاة بلا خلاف في قيمة العروض، لا في عينها؛ لأن النصاب معتبر بالقيمة، فكانت الزكاة منها، وواجب التجارة هو ربع عشر القيمة كالنقد باتفاق العلماء، قال ابن المنذر: أجمع أهل العلم على أن في العروض التي يراد بها التجارة: الزكاة إذا حال عليها الحول.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat