سوال:
مفتی صاحب! میں زکوة انگریزی مہینوں کے اعتبار سے دیتی ہوں، مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ زکوة اسلامی مہینوں کے اعتبار سے دینی چاہیے، اب میں سارا حساب کروں یا آئندہ سے اسلامی مہینے کے اعتبار سے دوں؟
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ قمری سال کے اعتبار سے دینی چاہیے، نہ کہ شمسی سال کے اعتبار سے، یعنی جس قمری تاریخ کو کوئی شخص صاحب نصاب بنا ہو، سال گزرنے کے بعد اس قمری تاریخ پر صاحب نصاب ہونے کی صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
لہٰذا پچھلے سالوں میں جس دن آپ صاحب نصاب بنی تھیں اس دن کی چاند کی تاریخ معلوم کرکے دیکھ لیں کہ آپ پر جتنی زکوة بنتی تھی، اتنی ہی نکالی ہے یا کم؟ اگر کم نکالی ہے تو جو باقی رہ گئی ہے وہ بھی ادا کردیں اور آئندہ چاند کی تاریخ کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر آپ زکوة کا حساب کیا کریں، البتہ ادائیگی شمسی تاریخ کے اعتبار سے کرسکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار:(2/ 294- 295، ط: دارالفکر)
(وحولها) أي الزكاة (قمري) بحر عن القنية (لا شمسي) وسيجيء الفرق في العنين.
قوله: وسيجيء الفرق في العنين) عبارته مع المتن وأجل سنة قمرية بالأهلة على المذهب وهي ثلثمائة وأربع وخمسون وبعض يوم، وقيل شمسية بالأيام وهي أزيد بأحد عشر يوما. اه.
ثم إن هذا إنما يظهر إذا كان الملك في ابتداء الأهلة، فلو ملكه في أثناء الشهر، قيل يعتبر بالأيام، وقيل يكمل الأول من الأخير ويعتبر ما بينهما بالأهلة نظير ما قالوه في العدة ط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی