سوال:
مفتی صاحب! مندرجہ ذیل حدیث کا ترجمہ و تشریح فرما دیں:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب تم کسی میت کی نمازِ جنازہ پڑھو تو اس کے لیے اخلاص سے دعا کیا کرو۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ حدیث شریف امام ابوداؤد نے اپنی کتاب سنن ابی داؤد میں نقل کی ہے جس کا ترجمہ اور مختصر تشریح درج ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب تم کسی میت کی نمازِ جنازہ پڑھو تو اس کے لیے اخلاص سے دعا کیا کرو۔ (بوداؤد: 3199)
تشریح:
واضح رہے کہ نماز جنازہ کا مقصد مسلمان میت کے لیے دعاء مغفرت کرنا اور اس کی بخشش کی شفاعت کرنا ہوتا ہے، اس حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ جب تم کسی مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھو تو قطع نظر اس سے کہ وہ نیک انسان تھا یا گناہگار، اس کے لیے خوب اخلاص سے دعائے مغفرت کیا کرو۔ اس دعاء کا مقام نمازِ جنازہ کی تیسری تکبیر کے بعد ہے۔
بعض حضرات کو اس حدیث شریف کے سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ نماز جنازہ کے بعد الگ سے اجتماعی دعا کرنی چاہیے، یہ بالکل غلط تشریح ہے، اس لیے کہ حدیث کے الفاظ میں اس طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا، اور نہ ہی اس بارے میں کوئی اور دلیل موجود ہے، دراصل یہاں "فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ" میں "فا" عطف اور تعقیب کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہاں "فا" جوابِ شرط پر داخل ہے جو طلب پر دلالت کرتی ہے، سمجھنے کے لیے ہم قرآن مجید سے اس جیسی ایک مثال لے سکتے ہیں:
"وَاِذَا قُرِئَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ وَاَنۡصِتُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَO
ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے(الاعراف:204)
یہاں قرآن سننے اور خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب تلاوت مکمل ہو جائے اس کے بعد خاموش رہو اور سنو، بلکہ تلاوت خاموشی اور سننا یہ سب ایک ساتھ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
*سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث:3199، ط: دارالرسالة العالمیة)*
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ "إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى الْمَيِّتِ فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ"۔
*نیل الاوطار: (118/5، ط' داربن القیم)*
فيه دليل على أنه لايتعين دعاء مخصوص من هذه الأدعية الواردة، وأنه ينبغي للمصلي على الميت أن يخلص الدعاء له سواء كان محسناً أو مسيئاً، فلأن ملابس المعاصي أحوج الناس إلى دعاء إخوانه المسلمين وأفقرهم إلى شفاعتهم، ولذلك قدموه بين أيديهم وجاءوا به إليهم ، لا كما قال بعضهم: إن المصلي يلعن الفاسق ويقتصر في الملتبس على قوله: اللهم إن كان محسناً فزده إحساناً وإن كان مسيئاً فأنت أولى بالعفو عنه؛ فإن الأول من إخلاص السب لا من إخلاص الدعاء ، والثاني من باب التفويض باعتبار المسيء لا من باب الشفاعة والسؤال وهو تحصيل الحاصل، والميت غني عن ذلك۔
*المنھاج فی القواعد و الاعراب:(ص: 270، ط: مکتبۃ الحسن)*
الفاء رابطة لجواب الشرط؛ وهي فاء لا عمل لها، تقع في جواب الشرط اذا كان الجواب جملة فعلية ذات فعل يدل على الطلب (مثل) اذا لعبت فلا تكثر.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی