سوال:
حافظ ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو چکی تھی اور اثپ خطبہ دے رہے تھے تو ایک قافلہ کچھ سامان لے کر آیا اور ڈھول بجا کر اس کے آنے کا اعلان بھی کیا جا رہا تھا، اس وقت مدینہ منورہ میں کھانے پینے کی چیزوں کی کمی تھی، اس لیے صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد خطبہ چھوڑ کر اس قافلے کی طرف نکل گئی اور تھوڑے سے افراد مسجد میں رہ گئے۔
مفتی صاحب! کیا نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں جمعہ کا خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا؟ جیسا کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے تو اب کیوں پہلے خطبہ ہوتا ہے اور نماز بعد میں ہوتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مفسرین کے ایک قول کے مطابق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں نمازِ جمعہ کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے، لیکن سوال کے ساتھ جس واقعہ کو ارسال کیا گیا ہے، اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا طرزِ عمل بدل کر نمازِ جمعہ سے پہلے خطبہ دینے کو معمول بنایا۔
بہر حال اصل حکمِ شرعی یہی ہے کہ خطبہ کا وقت نمازِ جمعہ سے پہلے کا ہے، اور یہی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرتِ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرکے جمعہ کی نماز کے لیے آیا، پھر جو رکعتیں اس کی مقدر میں تھی، اس ان کو پڑھ لیا، پھر خاموش رہا یہاں تک کہ امام کے خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد اس کے ساتھ نماز پڑھ لی تو اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اس کے تمام گناہ معاف کیے جاتے ہیں، اور مزید تین دن کے گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں"۔ ( صحیح مسلم، حدیث نمبر: 857)
اس روایت کے نمایاں الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ خطبہ کا وقت جمعہ کی نماز سے پہلے ہے۔
مراسیلِ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد حضرتِ ابوبکر، حضرتِ عمر اور حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہم جمعہ کے دو خطبے دے کر اس کے بعد نماز پڑھایا کرتے تھے۔ (مراسیلِ ابی داؤد، حدیث نمبر: 55)
لہذا جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ دینا عین شرعی حکم کے مطابق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*الدلائل:*
*الصحيح لمسلم: (587/2، رقم الحديث: 857، ط: دار إحياء التراث العربي)*
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من اغتسل، ثم أتى الجمعة، فصلى ما قدر له. ثم أنصت حتى يفرغ من خطبته. ثم يصلي معه، غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى، وفضل ثلاثة أيام".
*المراسيل لأبي داؤد: (ص: 101، رقم الحديث: 55، ط: مؤسسة الرسالة)*
حدثنا ابن السرح، وحدثنا سليمان بن داود، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال: بلغنا أن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، «كان يبدأ فيجلس على المنبر، فإذا سكت المؤذن قام فخطب الخطبة الأولى، ثم جلس شيئا يسيرا، ثم قام فخطب الخطبة الثانية حتى إذا قضاها استغفر ثم نزل فصلى» قال: ابن شهاب: «فكان إذا قام أخذ عصا فتوكأ عليها وهو قائم ⦗١٠٢⦘ على المنبر» ، ثم كان أبو بكر الصديق، وعمر بن الخطاب، وعثمان بن عفان، يفعلون مثل ذلك.
*تفسير إبن كثير: (149/8، ط: دار الكتب العلمية)*
ولكن هاهنا شيء ينبغي أن يعلم وهو: أن هذه القصة قد قيل إنها كانت لما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقدم الصلاة يوم الجمعة على الخطبة، كما رواه أبو داود في كتاب المراسيل، حدثنا محمود بن خالد عن الوليد، أخبرني أبو معاذ بكير بن معروف أنه سمع مقاتل بن حيان يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي يوم الجمعة قبل الخطبة مثل العيدين، حتى إذا كان يوم والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب، وقد صلى الجمعة، فدخل رجل فقال: إن دحية بن خليفة قد قدم بتجارة، يعني فانفضوا ولم يبق معه إلا نفر يسير وقوله تعالى: قل ما عند الله أي الذي عند الله من الثواب في الدار الآخرة خير من اللهو ومن التجارة والله خير الرازقين أي لمن توكل عليه وطلب الرزق في وقته.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی