سوال:
میں ایک سرکاری کالج میں پروفیسر ہوں، میرا ایک پرائیویٹ اسکول اور کالج ہے، میرے کالج میں ہم نویں، دسویں، گیارہویں اور بارھویں کے اسٹوڈنٹس کا ایڈمشن کرواتے ہیں، ان اسٹوڈنٹس سے بیس سے پچیس ہزار لیتے ہیں اور ان کو امتحان کے وقت کے پی کے مردان کوہاٹ کرک بورڈ میں داخل کرواتے ہیں اور وہاں نقل کروا کے اچھے نمبروں میں پاس کروانے کی ذمہ داری لیکر پاس کرواتے ہیں، اس چیز کا اسٹوڈنٹس، ان کے والدین اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ نقل کرکے پاس ہونا ہے، کیا اس طرح کی لین دین سے اخذ کیا ہوا پیسہ میرے لیے جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ امتحانات میں نقل کرنا اور کروانا ناجائز ہے، اور اس مقصد کے لیے رقم لینا اور دینا رشوت کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے سوال میں ذکر کردہ معاملہ کرنا ناجائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہے، لہذا اس طرح کا معاملہ کرنے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 3580، ط: دار الرسالة العالمیة)
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي۔
رد المحتار: (362/5، ط: دار الفکر)
الرِّشْوَةُ بِالْكَسْرِ مَا يُعْطِيهِ الشَّخْصُ الْحَاكِمَ وَغَيْرَهُ لِيَحْكُمَ لَهُ أَوْ يَحْمِلَهُ عَلَى مَا يُرِيدُ، جَمْعُهَا رِشًا مِثْلُ سِدْرَةٍ وَسِدَرٍ، وَالضَّمُّ لُغَةٌ وَجَمْعُهَا رُشًا بِالضَّمِّ اه وَفِيهِ الْبِرْطِيلُ بِكَسْرِ الْبَاءِ الرِّشْوَةُ وَفَتْحُ الْبَاءِ عَامِّيٌّ.
وَفِي الْفَتْحِ: ثُمَّ الرِّشْوَةُ أَرْبَعَةُ أَقْسَامٍ: مِنْهَا مَا هُوَ حَرَامٌ عَلَى الْآخِذِ وَالْمُعْطِي وَهُوَ الرِّشْوَةُ عَلَى تَقْلِيدِ الْقَضَاءِ وَالْإِمَارَةِ.الثَّانِي: ارْتِشَاءُ الْقَاضِي لِيَحْكُمَ وَهُوَ كَذَلِكَ وَلَوْ الْقَضَاءُ بِحَقٍّ؛ لِأَنَّهُ وَاجِبٌ عَلَيْهِ.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی