resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: سود کی رقم سے گاڑی کے چالان کی ادائیگی کرنا (23780-No)

سوال: زید نے حامد سے 2 سال پہلے گاڑی خریدی، گاڑی جب حامد کی ملکیت میں تھی اس وقت سرکاری قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے آن لائن چالان کی خبر ملی لیکن حامد نے اس سے بے اعتنائی برتی، اب چونکہ گاڑی زید کے نام ہے تو سرکار اُس سے اس رقم کا مطالبہ کر رہی ہے تو کیا ایسی صورت میں چالان کی مدمیں سود وغیرہ کی رقم دے سکتے ہیں؟ جلد از جلد جواب مطلوب ہے ۔

جواب: واضح رہے کہ سود سے حاصل ہونے والی آمدنی شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیا جائے، لہذا اسے چالان کی مد میں دینا درست نہیں ہے، بلکہ ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ہی ضروری ہے، نیز اگر حامد نے زید کو گاڑی فروخت کرتے وقت چالان کے بارے میں نہیں بتایا تھا، اور زید نے چالان کی ادائیگی کی ذمہ داری نہیں لی تھی تو چالان کی رقم کی ادائیگی شرعاً حامد پر ہی لازم ہوگی، تاہم فریقین اگر چاہیں تو باہمی رضامندی سے مصالحت کی کوئی جائز صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278، 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1598، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن جابر قال: لعن رسول اللّٰه ﷺ اٰکل الربا وموکله وکاتبه وشاہدیه ، وقال: هم سواء.

رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه

بذل المجھود: (359/1، ط: مرکز الشیخ اَبی الحسن الندوی)
یجب علیه أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیه أن یتصدق بمثل ملك الأموال علی الفقراء۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things