resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ماں باپ کی دعا کامقام (23793-No)

سوال: مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر بار بار فرماتے ہیں کہ شریعت میں باپ کی دعا کا ذکر ہے، باپ کی دعا اولاد کو لگتی ہے، باپ کی بددعا سے بچو۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ پھر ہم مائیں اولاد کے لئے جو دعائیں مانگتی ہیں، کیا ان کی کوئی وقعت نہیں ہے؟ ماؤں کی دعائیں اللہ کی بارگاہ میں کیا مقام رکھتی ہیں؟ شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمایئے گا۔ جزاکم اللّہ خیرا کثیرا کثیرا

جواب: حدیث مبارکہ میں ہے: "تین لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، "والد" کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا"۔ (ابوداود: حدیث نمبر: 1536)
اس حدیث مبارکہ میں اگرچہ "والد" کا ذکر ہے، مگر شارحین نے صراحت فرمائی ہے کہ اس میں "والد" سے مراد صرف باپ نہیں ہے، بلکہ ماں بھی ہے، کیونکہ عربی میں "والد" عام طور پر ماں باپ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، بلکہ ماں کا حق تو اور زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن شریف میں ہے:
جس کا ترجمہ ہے: "اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے بڑی مشقت سے اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا، اور بڑی مشقت سے اس کو جنا، اور اس کو اٹھائے رکھنے اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہوتی ہے"۔ [الأحقاف: آیت نمبر: 15]
اس آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے کر والدہ کا ذکر اور زیادہ اہتمام کے ساتھ کیا گیا ہے، ایک حدیث مبارکہ میں ماں کی عظمت کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: "یارسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "تیری ماں۔" اس نے پھر پوچھا: "پھر کون؟" آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا: "تیری ماں۔" اس نے پھر پوچھا: "پھر کون؟" تو آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی فرمایا: "تیری ماں۔" جب اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "تیرا باپ۔" (صحیح البخاری: حدیث نمبر: 5971، صحیح مسلم: حدیث نمبر:2548)
معلوم ہوا کہ ماں کی دعا بہت عظیم ہے، بلکہ بعض اوقات ماں کی دعا اولاد کے حق میں نسبتاً زیادہ مؤثر ہوتی ہے، بہرحال اولاد کو چاہیے کہ توازن کے ساتھ ماں باپ دونوں کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھے، اور ہمیشہ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (الأحقاف، الآية: 15)
{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ}

صحيح البخاري: (2/8، ط: دار طوق النجاة، رقم الحديث: 5971)
حدثنا ‌قتيبة بن سعيد: حدثنا ‌جرير، عن ‌عمارة بن القعقاع بن شبرمة، عن ‌أبي زرعة، عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال: «جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: ‌أمك، قال: ‌ثم ‌من؟ قال ‌أمك، قال: ‌ثم ‌من؟ قال: ‌أمك، قال: ‌ثم ‌من؟ قال: ثم أبوك»

صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2548، 1974/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدثنا قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف الثقفي وزهير بن حرب. قالا: حدثنا جرير عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة. قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال "‌أمك" قال: ‌ثم ‌من؟ قال "ثم ‌أمك" قال: ‌ثم ‌من؟ قال "ثم ‌أمك" قال: ‌ثم ‌من؟ قال "ثم أبوك". وفي حديث قتيبة: من أحق بحسن صحابتي؟ ولم يذكر الناس»

سنن أبي داود: (رقم الحديث: 1536، 639/2، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي جعفر عن أبي هريرة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن: دعوة الوالد، ودعوة المسافر، ودعوة المظلوم"»

شرح سنن أبي داود لابن رسلان: (365/7، ط: دار الفلاح)
«قوله: دعوة الوالد: والجد في معنى الوالد، والوالدة والجدة كذلك، والمعلم في معنى الوالد، بل أعظم؛ حتى قال بعض أصحابنا: عقوق الوالد يغفر بالتوبة منه، بخلاف عقوق الشيخ المعلم.»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Azkaar & Supplications