سوال:
1) متوفیٰ خاتون عرصہ تقریباً بیس سال سے اپنے شوہر سے لا تعلق رہی لیکن طلاق نہیں ہوئی،متوفیٰ خاتون کی اولاد نہیں تھی، شوہرنے دوسری شادی کی تھی، اس سے اولاد تھی، اب وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟ جبکہ متوفیٰ خاتون کے شوہر، تین بھائی اور تین بہنیں حیات ہیں، کون کتنا حق دار ہے؟
2) متوفی خاتون نے اپنے پہنے ہوئے زیور، بالیوں اور کوکا کی وصیت متعین غسل دینے والی خواتین کے لئے کی تھی، غسل تو انہیں متعین خواتین نے ہی دیا لیکن ورثاء نے غالبًا لاعلمی کی وجہ سے وہ دوسرے ادارے میں دے دیا ہے تو اب اس کا کیا حکم ہے؟
3) متوفیٰ خاتون کی وصیت کے مطابق ساری رقم مسجد اور مدرسے کے کاموں میں لگانی تھی اور اپنی زندگی میں بار بار تاکید بھی کرتی رہی ہے کہ میرے فوت ہونے کے بعد سب کچھ مسجد مدرسے کا ہے تو کیا ان کی حکماً تاکید سے وہ مسجد مدرسے کا ہوگا یا ترکہ کی تقسیم پر ہوگا؟ براہ کرم تفصیل سے وضاحت فرمائیے۔
جواب: 1) واضح رہے کہ نکاح میں ہوتے ہوئے شوہر اور بیوی کو کسی بھی وجہ سے ایک دوسرے سے علیحدہ رہتے ہوئے خواہ کتنا ہی عرصہ گزر جائے، اس سے ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ایسی صورت میں کسی ایک کے انتقال ہونے کی صورت میں دوسرا اس کی میراث میں حقدار ہوتا ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ شوہر نے طلاق نہیں دی تھی اور مرحومہ کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے، اس لیے مرحومہ کا شوہر اپنی بیوی کی میراث میں آدھے (1/2) حصے کا حقدار ہے، باقی آدھا حصہ مرحومہ کے تین بھائی اور تین بہنوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔
مرحومہ کی کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو اٹھارہ (18) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے شوہر کو نو (9) حصے، تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو دو (2) اور تینوں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
فیصد کے اعتبار سے شوہر کو %50 فیصد حصہ، تینوں بھائیوں می سے ہر ایک کو %11.11 فیصد حصہ اور تینوں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو %5.55 فیصد حصہ ملے گا۔
2) قرآن شریف میں وصیت کرنے والے کی جائز وصیت کو تبدیل کرنے والے کے متعلق اللہ پاک کا ارشاد ہے:
جس کا ترجمہ ہے: "پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے یقین رکھو کہ اللہ ( سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔ (سورة البقرة، آیت نمبر:181)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جائز وصیت میں تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے، لہذا مرحومہ کی ایک تہائی (1/3) حصہ تک جائز وصیت پر عمل کرنا ورثاء پر لازم تھا، ورثاء وصیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہیں، ورثاء پر لازم ہے کہ مرحومہ کے پہنے ہوئے زیور، بالیاں اور کوکا یا ان کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ان کی مالیت متعین کردہ عورت کو دیں، بشرطیکہ یہ سامان یا ان کی مالیت ایک تہائی (1/3) کے بقدر یا اس سے کم ہو۔
3) "میرے فوت ہونے کے بعد سب کچھ مسجد مدرسے کا ہے" وصیت ہے، اور وصیت ایک تہائی (1/3) تک نافذ ہوتی ہے، لہذا مرحومہ کی کل جائیداد میں سے ایک تہائی (1/3) تک مسجد اور مدرسہ میں دیا جائے گا، باقی دو تہائی (2/3) شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 181)
فَمَنْ بَدَّلَه بَعْدَ مَا سَمِعَه فَاِنَّمَاۤ اِثْمُه عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَه ؕ اِنَّ اللّٰه سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ... الخ
وقوله تعالی: (النساء، الایة: 176)
إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ...الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (650/6، ط: دار الفکر)
"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته)"
الهندية: (90/6، ط: دار الفکر)
ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة ، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية
الهندية: ( كتاب الغصب، 119/5، ط: المطبعة الكبری)
وأما حكمه فالإثم والمغرم عند العلم وإن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: يوم الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي.
البحر الرائق: (208/4، ط: دار الکتاب الاسلامي)
"وفي التبيين لو علق الوقف بموته ثم مات صح ولزم إذا خرج من الثلث لأن الوصية بالمعدوم جائزة كالوصية بالمنافع ويكون ملك الواقف باقيا فيه حكما يتصدق منه دائما وإن لم يخرج من الثلث يجوز بقدر الثلث ويبقى الباقي إلى أن يظهر له مال أو تجيز الورثة"
الدر المختار: (کتاب الوصایا، 647/6، 648، ط: دار الفکر)
يعم الوصية والإيصاء۔۔۔ (هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا. قلت: يعني بطريق التبرع ليخرج نحو الإقرار بالدين فإنه نافذ من كل المال كما سيجيء ولا ينافيه وجوبها لحقه تعالى فتأمله۔"
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی