resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ڈراپ شپنگ (Drop shipping) میں سپلائر کے وکیل/ ایجنٹ کے طور پر اس کا مال آگے فروخت کرنا (23802-No)

سوال: مفتی صاحب! آج کل آن لائن ڈراپ شپنگ کا کام ہو رہا ہے جس میں آپ کسی بھی سپلائر ویب سائٹ سے اس کی پروڈکٹ لے کر اپنی ویب سائٹ یا اسٹور پر لگا لیں اور پھر اس کی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسا کہ فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر اشتہار چلا کر مارکیٹنگ کریں اور کسٹمر کو بھیج دیں، لیکن کسٹمر کو جو چیز بیچیں گے، وہ سپلائی ویب سائٹ ویب سائٹ والا کسٹمر کو بھیجے گا اور اگر کوئی بھی نقصان ہوگا تو سپلائر کا ہوگا۔ ہم اس چیز کے مالک نہیں بنے، لہذا ہم اسے اسلامی شریعت کے مطابق نہیں بیج سکتے یہ حرام ہے۔ اس حوالے سے کچھ مفتی صاحبان کی یوٹیوب پر ویڈیوز بھی موجود ہیں جس میں وہ اس کو حرام بھی بول رہے ہیں لیکن ساتھ دوسرا طریقہ بھی بتا رہے ہیں کہ آپ کمیشن ایجنٹ بن جاؤ یا کسی کو وکیل بناؤ اور پھر بیج دو۔ آپ سپلائر کو بتا دو کہ میں آپ کی چیز 500 والی چیز ایک ہزار میں بیج دوں گا اور 500 میرے کمیشن ہو جائے گا تو یہ جائز ہے۔ اس کو لوگ جائز مان کر کام کر رہے ہیں کیونکہ سپلائر ویب سائٹ پر ہوتا ہی یہی ہے کہ آپ پہلے وہاں اپنی رجسٹریشن کرواتے ہیں، پھر ان کی پروڈکٹ کا سارا ڈیٹا تصویر وغیرہ اپنے آن لائن اسٹور پر اپنا کمیشن رکھ کر لگاتے ہو۔ اس کمیشن میں آپ نے مارکیٹنگ کی یعنی کہ اشتہار چلایا، اس کے پیسے اور جو کمپیوٹر استعمال کیا اس بجلی کے خرچہ اور جو محنت کی اس کا معاوضہ شامل ہے۔ جب ہم سے کسٹمر لینے آتا ہے تو ہم اس کا نام، پتہ، نمبر اور جتنے پیسوں میں بیچی ہے، سب سپلائر ویب سائٹ کو دیتے ہیں اور پھر ہمیں وہ بتاتے ہیں کہ اس میں وہ اپنے کتنے پیسے رکھیں گے، ڈیلیوری چارجز وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں اور ہمارا کتنا کمیشن ہے یہ بھی ہمیں بتا دیتے ہیں اور کسٹمر کو ڈیلیور کر دیتے ہیں، ہم کمیشن ایجنٹ کے طور پر ہی کام کر رہے ہیں لیکن اگر کسٹمر نہیں لیتا تو چیز آفس آ جاتی ہے یا اگر راستے میں ٹوٹ جاتی ہے تو اس صورت میں نقصان سپلائر کا ہوگا، سپلائر کو یہ سب پتہ ہوتا ہے تو اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: ‏پوچھی گئی صورت میں سپلائر کی چیزوں کی تشہیر کرنا اور گاہک ملنے کی صورت میں سپلائر کے وکیل کے طور پر اس کا مال بیچنا اور اس عمل کے عوض سپلائر سے طے شدہ اجرت/کمیشن لینا شرعاً درست اور جائز ہے، بشرطیکہ بیچی جانے والی چیز حلال ہو اور اس میں کوئی اور غیر شرعی خرابی نہ پائی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (کتاب الإجارۃ، 5/6، ط: دار الفکر)
وشرطها : کون الأجرۃ والمنفعة معلومتین، لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعة

وفيه أيضا: (63/6، ط: دار الفکر)
و في الدلال و السمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه....و في الحاوي: "سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: "أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدا؛ لكثرة التعامل، و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial