سوال:
حضرت ، کیا لیزنگ پر کار لینا صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر لیزنگ کی مذکورہ کمپنیاں شریعہ کمپلائینٹ (Shariah Compliant) ہیں، تو چونکہ اس میں جید مفتیان کرام کی زیر نگرانی شریعت کے اصولوں کے مطابق کام ہورہا ہوتا ہے، لہذا ان سے کار کی لیزنگ کرانے کی گنجائش ہے، اور اگر وہ کمپنیاں شریعہ کمپلائینٹ نہیں ہیں، تو پھر ان کے ساتھ مندرجہ ذیل قباحتوں کی وجہ سے معاملہ کرنا جائز نہیں ہے:
1۔ مالی جرمانہ لگانا، جو کہ شرعاً ناجائز ہے:
جیساکہ "فتاوی شامی" میں ہے:
(قوله: لا باخذ مال في المذهب)... ؛ إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي".
(باب التعزير:مطلب في التعزير بأخذ المال ٦١/٤ ط:سعيد)
2۔۔ دوسری قباحت لیزنگ میں دو عقدوں کا بیک وقت جمع ہونا ہے، ایک عقدِ بیع کا ، جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی اجارہ (کرائے) کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں، جو کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہیں:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة". (رواه مالك و الترمذي و أبوداؤد و النسائي)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
"و عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة. رواه في شرح السنة.»"
پس مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی وجہ سے غیر شرعی اداروں سے لیزنگ کروانا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی