سوال:
مفتی صاحب! دعوت دین کے شرعی آداب کیا ہیں اور کسی کو نماز کی طرف بلانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیونکہ بعض لوگ بڑی سختی کے ساتھ نماز کی طرف بلاتے ہیں، کیا ان کا یہ طرزعمل صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ امر بالمعروف( لوگوں کو نیکی کی طرف بلانا ) شریعت کا اہم حکم اور انبیاء علیہم السلام کی ذمہ داری تھی۔ چونکہ اس مبارک کام کے بڑے تقاضے اور آداب ہیں، اس لیے اس کام کے لیے جن مبارک ہستیوں کا انتخاب کیا گیا تھا، وہ ہستیاں انسانی کمالات کے بلند مقام پر فائز تھیں، لہذا امر بالمعروف کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کو مد نظر رکھنا چاہیے، علماء کرام نے امر بالمعروف کے لیے جن بنیادی صفات کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:
۱) علم: یعنی جس نیکی کا حکم دینا یا جس برائی سے روکنا ہو، اس کا علم ہونا چاہیے۔
۲) نرمی: داعی کی طبیعت میں نرمی ہو اور جس بات کا حکم دینا یا جس سے روکنا مقصود ہو، اس کے متعلق حکمت اور دانائی رکھتا ہو۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے: "نرمی جس چیز میں بھی ہوگی، اس کو بلند کردے گی، اور جس چیز سے کھینچ لی جائے گے تو اسے پست کردے گی"(صحیح مسلم، حدیث نمبر:2594)
۳) صبر: تکالیف پر بہت زیادہ صبر کرنے والا ہو، جیسا کہ حضرت لقمان حکیم ؒنے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہا: ترجمہ: "بیٹا! نماز قائم کرو، اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمہیں جو تکلیف پیش آئے، اس پر صبر کرو۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہے"۔ (سورہ لقمان، آیت نمبر:17)
مذکورہ آداب کو مد نظر رکھتے ہوئے دین کی دعوت کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے، لہذا اگر کسی کو نماز کی دعوت دینی ہو تو اس کے سامنے نماز پڑھنے کے فضائل اور نہ پڑھنے کی وعیدیں بیان کی جائیں اور حکمت و بصیرت کے ساتھ مسجد کی طرف بلایا جائے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی