عنوان: قسطوں پر خرید و فروخت کی شرائط کیا ہیں؟ اور کیا غیر سودی بینکوں کے ساتھ مالی معاملات کرنا تقوی کے خلاف ہے؟ (2454-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب میرا مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی بینک کے ساتھ کاروبار کرنا کیسا ہے ؟
مجھے گاڑی لینی ہے اور وہ قسطیں مانگنے کے لیے اپنا ٹائم دیتے ہیں اور اگر ٹائم کے اندر قسط دیدی ہو تو وہی رقم رہے گا، ورنہ قسط کے ساتھ کچھ جرمانہ دینا ہوتا ہے۔
اور گاڑی پہلے ہی سے انشورنس ہوئی ہوتی ہے اور میں انشورنس نہیں لینا چاہوں، تو کیا کاروبار درست ہوگا؟
بینک کے ساتھ کاروبار نہ کرنا تقوی ہے اور کر لے تو سود کے زمرے میں تو نہیں آتا ؟
مذکورہ بالا صورتوں میں اگر جواز کا پہلو نہ ہو تو جواز کا کیا پہلو ہو گا کہ کاروبار درست ہو؟جواز کی کیا شرائط ہونگی ؟

جواب: 1)- واضح رہے کہ قسطوں پر کسی چیز کی خریدوفروخت چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:
١- اس چیز کی مجموعی قیمت باہمی رضامندی سے طے کرلی جائے، چاہے یہ قیمت نقد کے مقابلے میں زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
٢- قیمت کی وصولی کے لیے ماہانہ قسط کی مقدار اور تاریخ ادائیگی آپس میں مقرر کرلی جائے ۔
٣- کسی قسط کی گاہک کی طرف سے وصولی میں تاخیر یا کم ادا کرنے کی صورت میں اصل قیمت میں بطور جرمانہ اضافہ کرنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو ۔
ان شرائط کی پابندی کے ساتھ کسی بھی چیز کی قسطوں پر خریدوفروخت جائز ہے، ان میں سے کوئی شرط چھوٹ جائے، تو یہ خریدوفروخت جائز نہیں ہوگی۔
2)- عام طور پر غیر سودی بینک، قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر "التزام بالتصدق"(صدقہ دینے کو اپنے اوپر لازم کرنا) کی شرط لگاتے ہیں، اس شرط کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے، لہذا اگر بینک نے اس قسم کی شرط لگائی ہے، تو اس سے معاملہ ناجائز نہیں ہوتا ہے۔
٣- جو بینک مستند مفتیان کرام کی نگرانی میں اپنے معاملات شریعت کے اصولوں کے مطابق سر انجام دیتے ہیں، ان بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (كتاب البيوع، بابُ ما جاء في النہي عن بیعتین في بیعة، رقم الحديث: 1331)
(تحت حدیث أبي هريرة رضي الله عنه: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة".)
"وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین في بیعة أن یقول: أبیعُک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین، ولا یفارقہ علی أحد البیعتین فإذا فارقہ علی أحدہما، فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منہما"․

المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز".

مجمع الأنھر: (78/2)

المجلة: (رقم المادة: 225)

" البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح".

بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
"أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد".

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 863 Nov 08, 2019
qisto / qiston / instalment per kharido farokht ki sharaet kia hein? or ka ghair sodi banko ke / key sath mali muamlat karna taqwa ke / key khilaf he?, What are the terms of purchase and sale in installments? And is it against piety to do financial transactions with non-interest bearing banks?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.