سوال:
مفتی صاحب ! اگر کسی نے بعد میں استعمال کرنے کیلئے ڈالر کرنسی رکھی ہوئی ہے ، اور بعد میں اس کا ریٹ اچھا ہو جاتا ہے، تو یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آۓ گا؟
جواب: واضح رہے کہ ڈالر کو کسی اور ملک کی کرنسی کے بدلہ کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ایک کرنسی پر مجلس عقد میں پوری طرح قبضہ پایا جائے، نیز واضح ہو کہ استعمال کی نیت سے ڈالر رکھنا درست ہے، البتہ اس نیت سے ڈالر رکھنا کہ جب قیمت بڑھے گی تو فروخت کرکے خوب نفع کماؤں گا، بعض احوال میں ملک کے ساتھ بے وفائی کے علاوہ احتکار ( ذخیرہ اندوزی) ہونے کی بنا پر مکروہ ہے، جس پر ایک روایت میں لعنت آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجہ: (باب الحکرۃ و الجلب، رقم الحدیث: 2153، 14/3، ط: دار المعرفۃ)
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ
مصنف عبد الرزاق: (باب البز بالبز، رقم الحدیث: 14197)
لا یری بأسًا بالثوب بالثوبین نسیئۃ إذا اختلفا ویکرہہ من شيء واحد، قال الثوري: لا بأس بالنسمۃ بالنسمتین إذا اختلفا
الھدایۃ: (باب الربا)
وإذا عدم الوصفان والمعنی المضموم إلیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلۃ المحرمۃ۔
التبیان: (الربا، 79/3)
الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (348/8، ط: زکریا)
إن الأوراق النقدیۃ ثمن عرفي لیست ثمنًا حقیقیًا والربا یجري في الثمن الخلقي الذاتي إذا في الأوراق النقدیۃ في مختلف الدولۃ ینفی القدر والجنس، أما الجنس فظاہر الاختلاف الدولۃ، وأما القدر؛ لأنہا لیست من جنس الآثمان الخلقیۃ؛ بل عرفیۃ، فیجوز التفاضل والنسیۃ إلا أن القبض علی أحد البدلین ضروري؛ لئلا یقع في بیع الکالي بالکالي۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی