سوال:
مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ شوہر صاحب نصاب نہیں ہے، جاب کرتا ہے، جبکہ بیوی صاحب نصاب ہے، جس کی زکوۃ شوہر دیتا ہے اور ہر سال بیوی کی طرف سے قربانی بھی کرتا ہے۔ اگر اس سال وہ بیوی سے کہے کہ میرا دل ہے کہ قربانی میں اپنی طرف سے کروں اور اس سال تمہاری طرف سے نہیں کر سکوں گا تو کیا عورت گنہگار ہوگی یا اس پر قربانی واجب ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ قربانی صاحبِ نصاب شخص پر واجب ہوتی ہے اور اگر صاحب نصاب قربانی واجب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے تو اسے واجب چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر شوہر اپنی طرف سے نفلی قربانی کرے اور بیوی کی طرف سے واجب قربانی نہیں کرے تو شوہر کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے، کیونکہ شوہر پر بیوی کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بیوی کو اپنے مال سے قربانی کرنا واجب ہوگا، قربانی نہ کرنے کی صورت میں وہ گناہ گار ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجه: (رقم الحديث: 3123، ط: دار إحياء الكتب العربية)
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا زيد بن الحباب قال: حدثنا عبد الله بن عياش، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»
مجمع الأنہر: (کتاب الأضحیۃ، 166/4)
الأضحیۃ ھي واجبۃ علی حرّ مسلم مقیم موسر عن نفسه۔
الفتاوی الھندیۃ: (293/5، ط: دار الفکر)
ولیس علی الرجل أن یضحي عن أولادہ الکبار إلا وامرأتہٖ بإذنہ۔
المحيط البرهاني: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع..... أو لغيرها فإنها.... في داره.
الھندیة: (292/5، ط: دار الفکر)
(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة.
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: (324/30)
ترک الواجب مکروہ کراہة تحریم عند الحنفیۃ، وعند غیرہم حرام والمعنی واحد لأنہ یلزم الإثم عند الجمیع
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی