سوال:
مفتی صاحب! نعمان سعید میرے شوہر کے بھتیجے اور میرے بھانجے ہیں، اس کے علاوہ وہ میرے رضاعی بیٹے بھی ہیں، ہم نے ان کے لیے 2016 میں تقریبا ساڑھے چھ مرلہ کا پلاٹ خریدا،مزید یہ کہ ان کو پڑھایا اور ان کی شادی بھی ہم نے کرائی اور اب وہ ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس پلاٹ پر یہاں کبیر والا میں ہم نے گھر بنوایا، اوپر کے پورشن میں وہ میاں بیوی رہتے ہیں اور نیچے کے پورشن میں ہم رہتے ہیں، میرے مرحوم شوہر محمود الحسن نے بارہا کہا کہ یہ گھر نعمان کا ہے، لیکن ان کا انتقال وہ بیٹے کے نام نہ کروا سکے ، پوچھنا یہ ہے کہ باقی پراپرٹی کی طرح اس گھر میں بھی باقی وارثین کو حق دینا ہوگا یا نہیں ؟ شوہر کی وفات کے بعد انکا بقیہ ترکہ ہم تمام ورثاء کو دے چکے ہیں۔
مرحوم شوہر کے ورثاء میں والدہ، تین بھائی، بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ ہبہ (gift) کے تام(مکمل) ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز ہبہ کی جارہی ہو، اس کے مالکانہ تصرف کے ساتھ قبضہ بھی دے دیا جائے، محض زبانی طور پر کہہ دینے سے ہبہ تام نہیں ہوتا۔
لہذا مذکورہ صورت میں اگر آپ کے شوہر نے اپنے بھیتجےکو اپنی زندگی میں اس گھر کا قبضہ مالکانہ تصرف کے ساتھ دے دیا تھا تو اس صورت میں ہبہ تام ہوگیا اور اب وہ اس گھر کا مالک ہے، البتہ اگر آپ کے شوہر نے بھتیجے کو گھر کے مالکانہ تصرف کے ساتھ قبضہ نہیں دیا تھا تو اس صورت میں ہبہ تام نہیں ہوا اور وہ گھر آپ کے شوہر کی میراث میں تقسیم ہوگا۔
مرحوم شوہر کے ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیدادمنقولہ و غیر منقولہ کو بہتر (72) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے مرحوم کی بیوہ کو نو (9) حصے، ماں کو بارہ (12) حصے، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سولہ (16) حصے اور تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک (1) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %22.222 فیصد حصہ، والدہ کو %16.666 فیصد حصہ اور تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو %1.388 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم:(سُورۃ النساء،الآیة:11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ
الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الهبة، 690/5، 691، ط: سعيد)
(وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ( ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح.
الفتاوی الهندية: (كتاب الهبة، 392/4، ط: رشیدیة)
"فالمروي عنه في الهبة إذا كان الواهب في الدار أو كان فيها متاع الواهب أنه لا يجوز."
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی