resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کسی کے لیے پلاٹ خریدنے کے کئی سال بعد اس سے کمیشن کا مطالبہ کرنا

(24912-No)

سوال: میں کراچی شہر میں رہتا ہوں، میں نے ایک دوسرے شہر اپنے کزن کو پلاٹ خریدنے کے لیے بھیجا اور اس سے کہا کہ آنے جانے کا کرایہ آپ کو دے دیا جائے گا، اب کئی سال بعد وہ تقاضا کر رہا ہے کہ میں نے آپ کا پلاٹ خرید کر دیا تھا آپ مجھے بروکری کا ایک فیصد دو اور پندرہ دن میرے ادارے کی تنخواہ کٹی تھی وہ بھی دو کیونکہ میں پندرہ دن وہاں آپ کے کام سے تھا۔ اس کا یہ مطالبہ شرعا کیسا ہے؟ جبکہ اس نے پہلے بھی میرے لیے پلاٹ خریدے ہیں وہاں ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ کیا مجھ پر شرعاً کمیشن اور مدرسے کی تنخواہ کی کٹی ہوئی رقم اس کو دینا واجب ہے یا صرف کرایہ ہی کافی ہے؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ نے اپنے کزن کے ساتھ صرف آنے جانے کے کرائے کی بات کی تھی، اور اس کے علاوہ کمیشن یا اس کی تنخواہ سے کاٹی جانے والی رقم کے بارے میں کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی تو اس کی طرف سے مذکورہ پلاٹ کی خریداری پر کمیشن کے متعلق کئی سال تک خاموش رہنا، اور اس سے قبل وقتاً فوقتاً آپ کے لیے بغیر کسی کمیشن کے پلاٹ خریدتے رہنا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے یہ پلاٹ اپنی خوشی سے بغیر کمیشن کے آپ کے لیے خریدا تھا، لہٰذا اب اس کے لیے آپ سے مذکورہ پلاٹ کی خریداری پر دو فیصد کمیشن اور اپنی تنخواہ سے پندرہ دن کی کٹوتی کی رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (136/5، ط: دار الفکر)
وأما أجرة السمسار والدلال فقال الشارح الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم، وإلا فأكثرهم على عدم الضم في الأول، ولا تضم أجرة الدلال بالإجماع اه. وهو تسامح فإن أجرة الأول تضم في ظاهر الرواية والتفصيل المذكور قويلة، وفي الدلال قيل لا تضم والمرجع العرف كذا في فتح القدير اه.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی



Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment