resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ضاد کا مخرج، نماز میں ضاد کی جگہ دال پڑھنے سے نماز کا حکم (24936-No)

سوال: مفتی صاحب! کچھ لوگ ضاد کو دواد پڑھتے ہیں، کیا دواد پڑھنا غلط ہے؟ اس کا تفصیلی جواب دے دیں۔

جواب: عربی زبان میں "ضاد" اور "دال" دونوں مستقل اور الگ الگ حرف ہیں، ہر ایک اپنے مخرج اور صفات میں دوسرے سے جدا ہے، "ضاد" کو "دال" پڑھنا سنگین غلطی ہے، بعض صورتوں میں اس سے نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے، جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔
"ضاد" اور "دال" کا مخرج
"ضاد" کا مخرج زبان کی داہنی اور بائیں کروٹ میں سے کوئی اوپر کی ڈاڑھوں کی جڑ سے لگے تو اس سے "ضاد" ادا ہوتا ہے، جبکہ "دال" کا مخرج زبان کی نوک جب ثنایا علیا کی جڑ سے لگے تو اس سے "دال" ادا ہوتا ہے۔
"ضاد" کو "دال" پڑھنے سے متعلق جمال القرآن کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”اس حرف کو "د" پُر یا باریک یا "د" کے مشابہ جیسا کہ آج کل اکثر لوگوں کے پڑھنے کی عادت ہے، ایسا ہر گز نہیں پڑھنا چاہیے، یہ بالکل غلط ہے۔ “(جمال القرآن، ص: 12، مکتبۃ البشری)
نماز میں "ضاد" کی جگہ "دال" یا "ظاء" پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اس سے متعلق مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا فتوی یہاں نقل کیا جارہا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
”الغرض حرفِ ضاد اپنے مخرج وصفات کے اعتبار سے ظاء خالص اور دال پُر دونوں سے بالکل جدا ایک مستقل حرف ہے، اس کو جس طرح دال سے بدل کر (عوام کی طرح) پڑھنا غلطی ہے، اسی طرح ظاء خالص سے بدل کر (بعض قراءٔ زمانہ کی طرح) پڑھنا بھی غلطی صریح ہے، لیکن فسادِ نماز کے بارے میں فتویٰ اس پر ہے کہ اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے باوجود قادر بالفعل ہونے کے ایسا تغیر کرلے کہ ضاد کی جگہ دال یا ظاء خالص پڑھے تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر بوجہ ناواقفیت اور عدم تمیز ایسا سرزد ہوجائے اور وہ اپنے نزدیک یہی سمجھے کہ میں نے حرف ضاد پڑھا ہے تو نماز صحیح ہوجائے گی۔
جس کا حاصل یہ ہوا کہ عوام کی نماز تو بلا کسی تفصیل وتنقیح کے بہر حال صحیح ہوجاتی ہے، خواہ ظاء پڑھیں یا دال یا زاء وغیرہ، کیونکہ وہ قادر بھی نہیں اور سمجھتے بھی یہی ہیں کہ ہم نے اصلی حرف ادا کیا ہے، اور قراء مجوّدین اور علماء کی نماز کے جواز میں تفصیل مذکور ہے کہ اگر غلطی قصداً یا بے پروائی سے ہو تو نماز فاسد ہے اور سبقت لسانی یا عدم تمیز کی وجہ سے ہو تو جائز وصحیح ہے۔
تنبیہ: لیکن نماز کے جواز و عدمِ فساد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بے فکر ہوکر ہمیشہ غلط پڑھتے رہنا جائز ہوگیا اور پڑھنے والا گناہ گار بھی نہیں رہے گا، بلکہ اپنی قدرت وگنجائش کے موافق صحیح حروف پڑھنے کی مشق کرنا اور کوشش کرتے رہنا ضروری ہے، ورنہ گناہ گار ہوگا، اگرچہ نماز فاسد نہ ہو۔ (جواہر الفقہ 3/36، مکتبہ دار العلوم کراچی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

النشر في القراءات العشر للجزري: (200/1، ط: المطبعة التجارية الكبرى)
المخرج الثامن - للضاد المعجمة - من أول حافة اللسان وما يليه من الأضراس من الجانب الأيسر عند الأكثر، ومن الأيمن عند الأقل وكلام سيبويه يدل على أنها تكون من الجانبين ... المخرج الثاني عشر - للطاء والدال والتاء - من طرف اللسان وأصول الثنايا العليا مصعدا إلى جهة الحنك، ويقال لهذه الثلاثة النطعية ; لأنها تخرج من نطع الغار الأعلى، وهو سقفه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)