resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: سسر کا ایک فلیٹ ایک بہو کے نام کرنا، جبکہ دوسرا فلیٹ دوسری بہو کو دینے کی خواہش کرنا (24949-No)

سوال: مفتی صاحب! عرض ہے کہ ہم دو بھائی محمد شاہد اور محمد زاہد ہیں، ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں، والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ہمارے دو فلیٹ ہیں، جو ملے ہوئے ہیں، لیکن دونوں کی رجسٹری الگ الگ ہے، والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی ایک فلیٹ شاہد کی بیوی کے نام کر دیا تھا اور دوسرے فلیٹ کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ دوسرا فلیٹ زاہد کی بیوی کا ہوگا، لیکن رجسٹر نہ ہو سکا، یہ فلیٹ امی کے نام پر ہے تو اب ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ ہم اب اپنا سیٹ اپ الگ الگ کر لیں تو معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا جو فلیٹ شاہد کی بیوی کے نام ہے وہ ان کا ہی رہے گا یا اس کو بھی آدھا حصہ کرنا ہوگا اور جو امی کے نام ہے اس کا کس طرح حصہ کریں یا وہ زاہد کے حصے میں آئے گا؟ ہمارا ایک فلیٹ جو شاہد کا ہے اس کے ٹوٹل تین کمرے ہیں اور جو امی کے نام ہے اس کے ٹوٹل چار کمرے ہیں، لیکن پورا فلیٹ ایک ساتھ بنا ہوا ہے، اب ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کے بیچ دیوار کھڑی کر کے الگ ہو جائیں تو اس کے لیے شریعت کے حساب سے ہماری رہنمائی کیجئیے۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: واضح رہے کہ کسی چیز کو صرف نام کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس چیز کا مالکانہ تصرف اور قبضہ مکمل اختیارات کے ساتھ نہ دے دیا جائے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر سسر نے مالکانہ اختیارات کے ساتھ فلیٹ بہو (شاہد کی بیوی) کے نام کیا ہو تو یہ فلیٹ بہو کی ملکیت شمار ہوگا اور اس میں سسر کی میراث جاری نہیں ہوگی اور اگر سسر نے صرف فلیٹ نام کیا ہو، مالکانہ قبضہ و تصرف نہ دیا ہو تو ایسی صورت میں یہ فلیٹ سسر کی ہی ملکیت شمار ہوگا اور سسر کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کےمطابق تقسیم ہوگا۔
دوسرا فلیٹ زاہد کی بیوی کو دینے کی خواہش تھی لیکن چونکہ اپنی زندگی میں دیا نہیں تھا، اس لیے یہ فلیٹ والد کی ملکیت شمار ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کےمطابق تقسیم ہوگی۔
بہر صورت اگر دونوں فلیٹ والد کی ملکیت ہوں اور ان کے شرعی ورثاء میں صرف دو ہی لڑکے ہوں تو یہ دونوں فلیٹ یا ان کی موجودہ قیمت دونوں بیٹوں میں آدھی آدھی میں تقسیم ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔

شرح المجلة: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الهبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنها من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".

الفتاوی الھندیة: (378/4، ط: رشیدیه)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن ‌الإرث ‌إنما ‌يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل

الدر المختارمع رد المحتار: (کتاب الوصایا،648/6،ط:سعید)
"(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا۔"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster