عنوان: صحیح تندرست آدمی کا بھیک مانگ کر زندگی بسر کرنا(254-No)

سوال: مفتی صاحب ! ایک شخص کمانے کے قابل ہے اور کام بھی کرسکتا ہے، لیکن پھر بھی نہیں کماتا اور لوگوں سے مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ جب مانگ کر پیٹ بھررہا ہے تو کمانےکی کیا ضرورت ہے؟ تو ایسے شخص کو زکوة دینا یا ایسے شخص کا مانگنا درست ہے یا نہیں؟

جواب: جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو، اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو، اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو، جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہا ہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔
جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکوة یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ: (349/5، ط: دار الفکر)
ومن كان له قوت يومه لا يحل له السؤال كذا في الاختيار شرح المختار.

تبیین الحقائق: (302/1، ط: دار الفکر)
ما يحرم به السؤال وهو أن يكون مالكا لقوت يومه وما يستر به عورته عند عامة العلماء وكذا الفقير القوي المكتسب يحرم عليه السؤال

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (284/31، ط: دار السلاسل)
بين الرسول صلى الله عليه وسلم من تحل له المسألة، فقال لقبيصة بن المخارق: يا قبيصة، إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش، أو قال: سدادا من عيش، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه: لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له المسألة، حتى يصيب قواما من عيش أو قال: سدادا من عيش فما سواهن من المسألة - يا قبيصة - سحتا يأكلها صاحبها سحتا

و فیھا ایضاً: (341/6، ط: دار السلاسل)
قال ابن عابدين: لا يحل أن يسأل شيئا من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة، كالصحيح المكتسب، ويأثم معطيه إن علم بحاله؛ لأنه أعانه على المحرم

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 816 Dec 29, 2018
saheeh tandrust aadmi ka bheek maang kar zindagi basar karna/sahi tandrust aadmi ka bheek mang kar zindagi basar karna , is it allowed for a healthy and fit person to live their life by begging?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.