عنوان: امام صاحب کے گھر کی بجلی کا بل مسجد کےفنڈ سے ادا کرنا(2632-No)

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیاں کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے تیس سال قبل ایک مسجد میں امام رکھا گیا، امام اپنے اہل خانہ کیساتھ مسجد کے گھر تشریف لے آئے، کمیٹی ممبران کہتے ہیں کہ مسجد کا بجلی اور گیس کا بل زیادہ آتا ہے اور دیگر اخراجات بھی زیادہ ہوگئے ہیں، اب کمیٹی ممبران کا کہنا ہے کہ صرف امام اس گھر سے مستفید ہوسکتے ہیں، ان کی اولاد نہیں۔ اس صورت میں مسئلہ کی وضاحت فرمادیں۔

جواب: اسلام اور مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز منصب رہاہے اوراس پر فائز رہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا رہا ہے، کیونکہ امام ملازم نہیں، بلکہ قوم کا قائد ورہبر ہے، ائمہ کرام کا احترام اور ان کی خبر گیری کرنا تمام مسلمانوں کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔ 
امامت کی اہميت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک حدیث  نقل کی ہے کہ
"اَنّ رَجُلًا اَتَی النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فَقَالَ: مُرْنِیْ بِعَمَلٍ اَعْمَلُہُ، قَالَ: کُنْ اِمَامَ قَوْمِکَ، قَالَ: فَاِنْ لَمْ اَقْدِرْ، قَالَ: کُنْ مِنْ مُؤذِنِھِمْ"۔
ترجمہ:
ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی  خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! مجھے کوئی کام بتائیں،تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قوم کے امام بن جاوٴ“ تو انھوں نے کہا”اگر یہ ممکن نہ ہو تو؟“ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھرموٴذن بن جاوٴ“۔
(شرح عمدة الفقہ: ج:3، ص:139، ط : شبکة مشکاة الاسلامیہ )
اس حدیثِ پاک سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں امامت اور موٴذنی ایک اعلیٰ اور شرف والاعمل تھا،اسی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کواس کی تلقین فرمائی، اس لئے اہل محلہ کی ذمہ داری ہے کہ امام کی ضروریات کا خیال رکھیں ، اُسے اتنی تنخواہ دی جائے، جو اُس کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور اُس علاقے کے متوسط فرد کی تنخواہ کے برابر ہو اور اس کی غلطیوں کے پیچھے نہ پڑیں، کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، فرشتے نہیں ہے۔
اسی طرح امام صاحب مسجد اور اہل محلہ کی دینی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے اہل محلہ کو چاہیے کہ اگر وہ خود بجلی کا بل نہیں بھر سکتے ہیں تو ان کے ساتھ تعاون کریں۔
صورت مسئولہ میں امام صاحب اور مسجد کی انتظامیہ آپس میں مشورے اور رضامندی سے یہ مسئلہ حل کرلیں، کچھ امام صاحب انتظامیہ کی بات مان لیں اور کچھ انتظامیہ امام صاحب کی بات کا لحاظ کرلیں، تو اس صورت ميں معاملہ بخوبی اور احسن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (کتاب الوقف، 358/4، ط: سعید)
لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 961 Nov 25, 2019
imam sahab ke / key ghar ki bijli ka bill masjid ke / key fund se / sey ada karna, Paying the electricity bill of Imam Sahib's house from the masjid / mosque fund

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.