سوال:
میں پہلے کپڑے ہاتھ سے دھوتی تھی، لیکن اب جوڑوں کی تکلیف بڑھ جانے کی وجہ سے کپڑے ہاتھ سے دھونے مشکل ہو رہے ہیں، کسی سے دھلوا کر میری تسلی نہیں ہوتی، اس لیے میں آٹو میٹک واشنگ مشین لینا چاہتی ہوں، جس میں کپڑے خود ہی دھلتے ہیں اور مشین انہیں اندر ہی خشک کر دیتی ہے۔ اب آپ یہ رہنمائی فرما دیں کہ اس طرح کی مشین میں اگر ناپاک کپڑے ڈال دیے جائیں تو کیا وہ پاک ہو جائیں گے؟
پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض دفعہ ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ کپڑے پاک ہیں یا ناپاک؟ اس لئے اگر کپڑے ناپاک ہوں گے تو کیا وہ اس طرح کی مشین میں دھونے سے پاک ہو جائیں گے؟
جواب: واضح رہے کہ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہو کہ ان پر کوئی ناپاکی یا نجاست لگی ہوئی ہے تو بہتر یہ ہے کہ ان پر سے نجاست علیحدہ سے دھو لی جائے اور پھر دوسرے کپڑوں کے ساتھ انہیں دھولیا جائے۔ چونکہ آٹومیٹک واشنگ مشین میں خود کار طریقے سے پانی کے ذریعے کپڑے اچھی طرح کھنگالے جاتے ہیں اور مشین کئی بار صاف پانی لے کر انہیں کئی بار ملتی اور صاف کرتی ہے، چنانچہ اس صورت میں اگر ناپاک کپڑےپاک کپڑوں کے ساتھ ڈال دیے جائیں اور مشین تین بار صاف پانی لے کر کھنگال کر ڈرین(Drain) کر لے تو اس صورت میں بھی ناپاک کپڑے دھلنے کے بعد پاک ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الطھارة، باب الأنجاس)
"أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیر أو جری علیہ الماء طہر مطلقا بلا شرط عصر وتجفیف وتکرار غمس ہو المختار".
و فيہ ایضا: (331/1)
''(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.
۔۔۔ أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق''.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی