سوال:
مفتی صاحب! ایک اہم مسئلہ درپیش ہے،رہنمائی فرمائیں۔ ایک شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ وہ صرف لیٹ کر ہی نماز ادا کر سکتا ہے اور اُسے پیمپر باندھنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات وہ مکمل نماز اسی حالت میں ادا کر لیتا ہے، لیکن جب نماز کے بعد پیمپر کھولتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ بول و براز (پیشاب پاخانہ) خارج ہو چکا ہے۔ اسے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ناپاکی نماز سے پہلے ہوئی یا بعد میں۔ ایسی صورت میں اس کی ادا کی گئی نمازوں کا کیا حکم ہوگا اور آئندہ کے لیے اس کی نماز کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ شخص کا پیشاب پاخانہ اتنے تسلسل سے نکلتا رہتا ہو کہ نماز کے کامل وقت میں اس کو اتنے وقت کی بھی مہلت نہیں ملتی کہ یہ طہارت کے ساتھ فرض نماز پڑھ سکے تو یہ شخص شرعاً معذور ہے۔ معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے پر وضو کرے اور اس وضو سے جتنی چاہے نمازیں (فرض و نفل) پڑھتا رہے، جب تک اس نماز کا وقت ختم نہ ہو جائے یا اس مذکورہ عذر کے علاوہ کوئی اور عارض وضو ٹوٹنے والا نہ پایا جائے تو اس کا وضو صرف اس عذر کی وجہ سے نہیں ٹوٹے گا، البتہ نماز کا وقت ختم ہونے پر وضو خود بخود ٹوٹ جائے گا، پھر دوسری نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا لازمی ہوگا، لیکن اگر صورت مذکورہ میں بول و براز (پیشاب پاخانہ) اتنے تسلسل سے نہیں نکلتا، بلکہ اس کو وقتی فرض نماز پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے تو یہ شخص شرعاً معذور نہیں ہے، لہذا ہر نماز سے پہلے پیمپر (Pamper) کو دیکھ کر پاکی ناپاکی کا حکم لاگو ہوگا، یعنی ہر نماز سے پہلے پیمپر کو دیکھ لیا جائے، اگر بول و براز (پیشاب پاخانہ) خارج ہوا ہے تو طہارت کرکے نماز پڑھے اور اگر بول و براز نہیں نکلا تو نماز اس حالت میں درست ہوگی۔ نیز سوال میں ذکر کردہ صورت میں جو نمازیں پہلے پڑھ چکا ہے ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نجاست غلیظہ کے ساتھ نمازیں پڑھنے کا یقین نہیں ہے، بلکہ نجاست فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الھندیة:(کتاب الصلاۃ،129/1،ط: رشیدیة)
ﺇﻥ ﻭﺟﺪ ﻓﻲ ﺛﻮﺑﻪ ﻧﺠﺎﺳﺔ ﻣﻐﻠﻈﺔ ﺃﻛﺜﺮﻣﻦ ﻗﺪﺭ اﻟﺪﺭﻫﻢ ﻭﻻ ﻳﺪﺭﻱ ﻣﺘﻰ ﺃﺻﺎﺑﺘﻪ ﻻ ﻳﻌﻴﺪ ﺷﻴﺌﺎ ﻣﻦ ﺻﻼﺗﻪ ﺑﺎﻹﺟﻤﺎﻉ ﻭﻫﻮ اﻷﺻﺢ. ﻛﺬا ﻓﻲ ﻣﺤﻴﻂ اﻟﺴﺮﺧﺴﻲ ﻭاﻟﺠﻮﻫﺮﺓ اﻟﻨﻴﺮﺓ.
وفيها أيضاً:(کتاب الطھارۃ،74/1،ط: رشیدیة)
ﺷﺮﻁ ﺛﺒﻮﺕ اﻟﻌﺬﺭ اﺑﺘﺪاء ﺃﻥ ﻳﺴﺘﻮﻋﺐ اﺳﺘﻤﺮاﺭﻩ ﻭﻗﺖ اﻟﺼﻼﺓ ﻛﺎﻣﻼ ﻭﻫﻮ اﻷﻇﻬﺮ ﻛﺎﻻﻧﻘﻄﺎﻉ ﻻ ﻳﺜﺒﺖ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﻮﻋﺐ اﻟﻮﻗﺖ ﻛﻠﻪ ﺣﺘﻰ ﻟﻮ ﺳﺎﻝ ﺩﻣﻬﺎ ﻓﻲ ﺑﻌﺾ ﻭﻗﺖ ﺻﻼﺓ ﻓﺘﻮﺿﺄﺕﻭﺻﻠﺖ ﺛﻢ ﺧﺮﺝ اﻟﻮﻗﺖ ﻭﺩﺧﻞ ﻭﻗﺖ ﺻﻼﺓ ﺃﺧﺮﻯ ﻭاﻧﻘﻄﻊ ﺩﻣﻬﺎ ﻓﻴﻪ ﺃﻋﺎﺩﺕ ﺗﻠﻚ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﻌﺪﻡ اﻻﺳﺘﻴﻌﺎﺏ.....اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﺳﻠﺲ اﻟﺒﻮﻝ ﺃﻭ اﺳﺘﻄﻼﻕ اﻟﺒﻄﻦ ﺃﻭ اﻧﻔﻼﺕ اﻟﺮﻳﺢ ﺃﻭ ﺭﻋﺎﻑ ﺩاﺋﻢ ﺃﻭ ﺟﺮﺡ ﻻ ﻳﺮﻗﺄ ﻳﺘﻮﺿﺌﻮﻥ ﻟﻮﻗﺖ ﻛﻞ ﺻﻼﺓ ﻭﻳﺼﻠﻮﻥ ﺑﺬﻟﻚ اﻟﻮﺿﻮء ﻓﻲ اﻟﻮﻗﺖ ﻣﺎ ﺷﺎءﻭا ﻣﻦ اﻟﻔﺮاﺋﺾ ﻭاﻟﻨﻮاﻓﻞ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ اﻟﺮاﺋﻖ.
بدائع الصنائع:(کتاب الطھارۃ،230/1،ط: رشیدیة)
ﻓﺎﻟﺤﺪﺙ ﻫﻮ ﻧﻮﻋﺎﻥ: ﺣﻘﻴﻘﻲ، ﻭﺣﻜﻤﻲ ﺃﻣﺎ اﻟﺤﻘﻴﻘﻲ ﻓﻘﺪ اﺧﺘﻠﻒ ﻓﻴﻪ، ﻗﺎﻝ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ اﻟﺜﻼﺛﺔ: ﻫﻮ ﺧﺮﻭﺝ اﻟﻨﺠﺲ ﻣﻦ اﻵﺩﻣﻲ اﻟﺤﻲ، ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﺴﺒﻴﻠﻴﻦ اﻟﺪﺑﺮ ﻭاﻟﺬﻛﺮ ﺃﻭ ﻓﺮﺝ اﻟﻤﺮﺃﺓ، ﺃﻭ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ اﻟﺴﺒﻴﻠﻴﻦ اﻟﺠﺮﺡ، ﻭاﻟﻘﺮﺡ، ﻭاﻷﻧﻒ ﻣﻦ اﻟﺪﻡ، ﻭاﻟﻘﻴﺢ، ﻭاﻟﺮﻋﺎﻑ، ﻭاﻟﻘﻲء ﻭﺳﻮاء ﻛﺎﻥ اﻟﺨﺎﺭﺝ ﻣﻦ اﻟﺴﺒﻴﻠﻴﻦ ﻣﻌﺘﺎﺩا ﻛﺎﻟﺒﻮﻝ، ﻭاﻟﻐﺎﺋﻂ، ﻭاﻟﻤﻨﻲ، ﻭاﻟﻤﺬﻱ، ﻭاﻟﻮﺩﻱ، ﻭﺩﻡ اﻟﺤﻴﺾ، ﻭاﻟﻨﻔﺎﺱ، ﺃﻭ ﻏﻴﺮ ﻣﻌﺘﺎﺩ ﻛﺪﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ.
فتاویٰ محمودیہ:(الفصل الثاني في احكام المعذورين،213/5،ط:ادارہ الفاروق کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی