سوال:
مفتی صاحب! ہوٹل میں کمرہ بک کرایا، اس کا کرایہ بھی جمع کرادیا، لیکن کمرہ استعمال نہیں کیا، اس صورت میں ہوٹل کامالک کرائے کی رقم واپس کرنے کا پابند ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ کمرہ بک کروانے کے بعد اگر ہوٹل کے مالک نے کمرہ استعمال کرنے کے مکمل اختیارات آپ کو دے دیے تھے، اس کے باوجود آپ نے کمرہ استعمال نہیں کیا تو ہوٹل کے مالک پر آپ کو رقم واپس کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی شرعاً آپ اس رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں، ہاں! البتہ اگر ہوٹل کے مالک نے کمرہ استعمال کرنے کے مکمل اختیارات آپ کو نہیں دیے تھے تو اس صورت میں آپ کےلئے اس رقم کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الاجارۃ، 10/6، 11، ط: سعید)
(ﺃﻭ اﻻﺳﺘﻴﻔﺎء)ﻟﻠﻤﻨﻔﻌﺔ (ﺃﻭ ﺗﻤﻜﻨﻪ ﻣﻨﻪ) ﺇﻻ ﻓﻲ ﺛﻼﺙ ﻣﺬﻛﻮﺭﺓ ﻓﻲ اﻷﺷﺒﺎﻩ.ﺛﻢ ﻓﺮﻉ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا ﺑﻘﻮﻟﻪ (ﻓﻴﺠﺐ اﻷﺟﺮ ﻟﺪاﺭ ﻗﺒﻀﺖ ﻭﻟﻢ ﺗﺴﻜﻦ) ﻟﻮﺟﻮﺩ ﺗﻤﻜﻨﻪ ﻣﻦ اﻻﻧﺘﻔﺎﻉ.
(ﻗﻮﻟﻪ ﺃﻭ ﺗﻤﻜﻨﻪ ﻣﻨﻪ) ﻓﻲ اﻟﻬﺪاﻳﺔ: ﻭﺇﺫا ﻗﺒﺾ اﻟﻤﺴﺘﺄﺟﺮ اﻟﺪاﺭ ﻓﻌﻠﻴﻪ اﻷﺟﺮﺓ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺴﻜﻦ.
ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻨﻬﺎﻳﺔ: ﻭﻫﺬﻩ ﻣﻘﻴﺪﺓ ﺑﻘﻴﻮﺩ: ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ اﻟﺘﻤﻜﻦ، ﻓﺈﻥ ﻣﻨﻌﻪ اﻟﻤﺎﻟﻚ ﺃﻭ اﻷﺟﻨﺒﻲ ﺃﻭ ﺳﻠﻢ اﻟﺪاﺭ ﻣﺸﻐﻮﻟﺔ ﺑﻤﺘﺎﻋﻪ ﻻ ﺗﺠﺐ اﻷﺟﺮﺓ.
بدائع الصنائع: (کتاب الاجارۃ، فصل فی شرائط الرکن، 542/5، ط: رشیدیة)
ﻭﻣﻨﻬﺎ: ﺑﻴﺎﻥ اﻟﻤﺪﺓ ﻓﻲ ﺇﺟﺎﺭﺓ اﻟﺪﻭﺭ ﻭاﻟﻤﻨﺎﺯﻝ، ﻭاﻟﺒﻴﻮﺕ، ﻭاﻟﺤﻮاﻧﻴﺖ، ﻭﻓﻲ اﺳﺘﺌﺠﺎﺭ اﻟﻈﺌﺮ؛ ﻷﻥ اﻟﻤﻌﻘﻮﺩ ﻋﻠﻴﻪ ﻻ ﻳﺼﻴﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ اﻟﻘﺪﺭ ﺑﺪﻭﻧﻪ، ﻓﺘﺮﻙ ﺑﻴﺎﻥﻫ ﻳﻔﻀﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﻨﺎﺯﻋﺔ، ﻭﺳﻮاء ﻗﺼﺮﺕ اﻟﻤﺪﺓ ﺃﻭ ﻃﺎﻟﺖ ﻣﻦ ﻳﻮﻡ ﺃﻭ ﺷﻬﺮ ﺃﻭ ﺳﻨﺔ ﺃﻭ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﻣﻌﻠﻮﻣﺔ، ﻭﻫﻮ ﺃﻇﻬﺮ ﺃﻗﻮاﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ.
ﻭﻓﻲ ﺑﻌﻀﻬﺎ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺳﻨﺔ، ﻭﻓﻲ ﺑﻌﻀﻬﺎ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺛﻼﺛﻴﻦ ﺳﻨﺔ، ﻭاﻟﻘﻮﻻﻥ ﻻ ﻣﻌﻨﻰ ﻟﻬﻤﺎ؛ ﻷﻥ اﻟﻤﺎﻧﻊ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻫﻮ اﻟﺠﻬﺎﻟﺔ ﻓﻼ ﺟﻬﺎﻟﺔ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻋﺪﻡ اﻟﺤﺎﺟﺔ ﻓﺎﻟﺤﺎﺟﺔ ﻗﺪ ﺗﺪﻋﻮ ﺇﻟﻰ ﺫﻟﻚ، ﻭﺳﻮاء ﻋﻴﻦ اﻟﻴﻮﻡ ﺃﻭ اﻟﺸﻬﺮ ﺃﻭ اﻟﺴﻨﺔ ﺃﻭ ﻟﻢ ﻳﻌﻴﻦ.
ﻭﻳﺘﻌﻴﻦ اﻟﺰﻣﺎﻥ اﻟﺬﻱ ﻳﻌﻘﺐ اﻟﻌﻘﺪ ﻟﺜﺒﻮﺕ ﺣﻜﻤﻪ.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی