سوال:
الحمدللہ! میری آنلائن قرآن اکیڈمی ہے۔ میری اکیڈمی کے ٹیچرز اپنے اپنے گھر میں رہتے ہوئے ہی بچوں کو آن لائن قرآن پاک کی تعلیم دیتے ہیں۔
1) سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ خود پندرہ دن کی چھٹی کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں ٹیچر کو پورے مہینے کی تنخواہ دینے کا میں پابند ہوں گا یا آدھے مہینے کی تنخواہ بھی دے سکتا ہوں؟
2) اگر ٹیچر خود کچھ دن (مثلاً دس دن) کی چھٹی لے تو کیا اس صورت میں ٹیچر کی دس دن کی سیلری کاٹ سکتا ہوں؟ کیونکہ ان دس دنوں میں مجھے اس ٹیچر کی کلاسس کبھی دوسرے ٹیچر سے کروانی پڑتی ہیں اور اس کو دس دن کی سیلری دینی پڑتی ہے اور کبھی مجھے خود وہ کلاسس دینی پڑتی ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیر خاص کی ہوتی ہے، جس میں ملازمین مقررہ اوقات پر حاضر یا مُیَسَّر رہنے کے پابند ہوتے ہیں، اور چھٹی سے متعلق فریقین آپس میں باہمی رضامندی سے جو بھی صورت اور ضابطہ طے کرلیں، شریعت نے اس میں گنجائش دی ہے۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں:
1) اگر کوئی بچہ حاضر نہیں ہوتا اور استاد پڑھانے کے لیے مُیَسَّر ہے تو چونکہ اس میں استاد کی جانب سے چھٹی نہیں پائی گئی، لہٰذا ایسی مدت کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہے۔
2) اگر استاد خود بغیر کسی معقول شرعی عذر کے غیر حاضر رہتا ہے تو اس کا حکم معاہدے میں طے شدہ شرائط پر منحصر ہے، مثلاً اگر مُعاہدے میں یہ طے کیا گیا ہو کہ ایک سال یا ایک مہینے میں زیادہ سے زیادہ اتنی چھٹیاں لینے کی اجازت ہوگی اور اس سے زائد کی صورت میں تنخواہ میں اسی کے بقدر کٹوتی ہوگی تو ایسی صورت میں طے شدہ تعداد سے زائد چھٹیوں کے بقدر تنخواہ میں کٹوتی کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية في شرح بداية المبتدي: (3/ 243، ط: دار احياء التراث العربي)
«قال: "والأجير الخاص الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم" وإنما سمي أجير وحد؛ لأنه لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له والأجر مقابل بالمنافع، ولهذا يبقى الأجر مستحقا، وإن نقض العمل»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی