resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مختلف اداروں/کمپنیوں سے آرڈر لے کر ان کی مطلوبہ چیز فروخت کرنا (27079-No)

سوال: مفتی صاحب! ہمارا جو یہاں کام ہے، وہ Industrial Trading کا ہے، کمپنیز کو جو اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہم سے Request کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر ہم مارکیٹ سے پرائز لے کر اپنے منافع کے ساتھ انہیں آگے پرائز دیتے ہیں، جب ان کی طرف سے purchase order آجاتا ہے، اس کے بعد ہم سامان خریدتے ہیں اور ہماری انوائس کے ساتھ کمپنی کو سپلائی کر دیتے ہیں
سوال یہ ہے کہ (١) کیا ہم کمپنی والوں کا مطلوبہ سامان خریدنے کے لیے کمپنی سے ایڈوانس پیسے لے سکتے ہیں؟
٢) جس دکان سے ہم سامان خرید رہے ہیں ، کیا ہم اس دکان والے کو ہی کہہ سکتے ہیں کہ سامان ہماری طرف سے کسٹمر تک پہنچا دے؟
جزاک اللہ خیرا

جواب: 1- واضح رہے کہ جو چیز ملکیت اور قبضہ (Possession) میں نہ ہو٬ اسے آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں ہے٬ لہذا اپنی خریداری اور قبضہ سے پہلے کسٹمر کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ تو نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس مرحلہ پر خرید و فروخت کا وعدہ کیا جاسکتا ہے۔
لہذا آپ ان اداروں سے آرڈر وصول کرکے وعدہ کے طور پر یہ معاملہ کرسکتے ہیں کہ فلاں تاریخ تک آپ کو فلاں چیز دیدوں گا۔ ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے ایڈوانس رقم لی جاسکتی ہے، جوکہ آپ کے ذمہ دَین (قرض) ہوگی، جب آپ مطلوبہ چیز ان کو بیچیں گے تو وہ اس کی قیمت میں شمار ہوگی۔
2- دکان سے سامان کی خریداری کے بعد براہ راست اپنے گاہک (کمپنی) کو سامان بھیجنے کی صورت میں آپ کا قبضہ نہیں پایا جا رہا، اس لئے بغیر قبضہ کے اسے آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں ہے، البتہ اگر آگے بیچنے سے پہلے خود یا اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے قبضہ کیا جائے تو پھر یہ معاملہ درست ہوجائے گا‍۔
واضح رہے کہ مال کو حسّی طور پر اپنی تحویل اور قبضہ (physical possession) میں لینا شرعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر حکمی/معنوی قبضہ (Constructive Possession) لے لیا جائے، تب بھی کافی ہے۔
حکمی قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ خریدے ہوئے مال کی باقاعدہ نشاندہی کرلی جائے، اور بیچنے والے کی طرف سے خریدار کے لیے اس میں مالکانہ تصرفات کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔
لہذا اگر آپ یا آپ کا نمائندہ حسی طور پر مال اپنے قبضہ میں لے کر پھر آگے گاہک کو بیچ دے، یا پھر دوسری صورت یہ ہے دکاندار آپ کے مال کی باقاعدہ نشاندہی کرکے الگ کرلے اور آپ کو مالکانہ تصرفات دیدے تو ایسی صورت میں شرعاً اس مال پر آپ کا قبضہ (حکمی) متحقق ہوجائے گا، اس کے بعد دکاندار آپ کے کہنے پر وہ مال آپ کے گاہک کو بھیج دے تو یہ صورت بھی شرعاً درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، رقم الحدیث: 1525، 1159/3، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت)
"عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: من ابتاع طعامًا فلا یبعه حتی یستوفیه، قال ابن عباس: وأحسب کل شيء مثله"

مرقاۃ المفاتیح: (باب المنهی عنها من البیوع، 78/6، ط: دار الکتب العلمیة)
"وقال القاري: قوله
ه: ’’لا تبع ما لیس عندک‘‘ أي شیئًا لیس في ملك حال العقد"

بدائع الصنائع: (الموضوع القبض فی بیع المشتري المنقول، 394/4، ط: زکریا)
"ومنها: القبض في بیع المشتري المنقول، فلا یصح بیعه قبل القبض،لما روي أن النبي علیه السلام نهیٰ عن بیع ما لم یقبض"

فقه البیوع: (1137/2، 1138)
الوعد او المواعدۃ بالبیع لیس بیعاً، ولا یترتب علیه آثار البیع من نقل ملکیة المبیع ولا وجوب الثمن.

بدائع الصنائع: (242/4، ط: زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial