سوال:
جناب مفتی صاحب !
ہم نے ایک کمرہ رہنے کے لیے خریدا اور اس میں رہائش پذیر تھے، پھر ایک اور مکان رہائش کے لیے خریدا اور اس دوسرے مکان میں شفٹ ہوگئے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس پہلے والے مکان پر زکوة کا کیا حکم ہے؟ اور اس کو ہم نے کرایہ پر دیا ہے تو اس کرایہ پر زکوة کا حکم کیا ہے؟ نیز پچھلے چھ سال سے ہم نے اس مکان کی زکوة نہیں ادا کی ہے۔
جواب: واضح رہے کہ رہائشی مکان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے،بلکہ ہر اس پلاٹ و مکان کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، جس کے خریدتے وقت حتمی طور پر، صرف یہ نیت کی گئی ہو کہ اس کو آئندہ فروخت کر دیا جائے گا، اس کے علاوہ کوئی اور نیت نہ ہو ۔
2۔ اسی طرح ہر وہ مکان جو کرایہ پر دیا ہوا ہو، اس پر بھی زکوۃ لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
التاتارخانیۃ: (166/3)
" ثم نیۃ التجارۃ لا تعمل ما لم ینضم إلیہ الفعل بالبیع أو الشراء أو السوم فیما یسام "
الدر المختار: (186/3)
"وشرط افتراض أدائہا حولان الحول وہو فی ملکہ أو نیۃ التجارۃ فی العروض".
الاشباہ و النظائر: (ص: 38)
"وتشترط نیۃ التجارۃ في العروض، ولابد أن تکون مقارنۃ للتجارۃ".
مجموعۃ الفتاویٰ: (کتاب الزکاۃ، 363/1)
" لو اشتریٰ الرجل داراً او عبداً للتجارۃ ثم آجرہ یخرج من ان یکون للتجارۃ ولو اشتریٰ قدوراً من الصفر یمسکہا ویواجرہا لا یجب فیہا الزکاۃ کما لا یجب فی بیوت الغلۃ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی