سوال:
السلام علیکم، کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اِس مسئلہ كے بارے میں كہ ایک آدمی سے غلطی میں قتل ہو جائے اور مقتول كے گھر والے معاف کردیں تو اس قتل خطاء کی وجہ سے بطور کفارہ قاتل پہ روزہ آئینگے یا نہیں ؟ اگر آئینگے تو کس ترتیب سے رکھنے ہونگے؟ اور اگر کوئی روزہ نہیں رکھنا چاہتا تو بدلے میں کوئی دوسرا حکم ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرماکار مشکور و ممنون فرمائیں۔ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ مقتول کے ورثاء کی طرف سے قتل ِخطاء میں دیت (تاوان ) معاف کرنے کی وجہ سے کفارہ معاف نہیں ہوتا، بلکہ قاتل کے ذمے کفارہ بدستور باقی رہتا ہے، قتل خطاء کا کفارہ یہ ہے کہ قاتل دو مہینے مسلسل اس طرح روزے رکھے کہ درمیان میں ایک روزہ بھی نہ چھوٹے، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی چھوٹ جائے تو پھر دوبارہ ازسر نو دو مہینوں کے روزے رکھنا ہونگے۔
کفارہ میں روزے کی طاقت رکھتے ہوئے کسی دوسرے متبادل ( فدیہ ) پر عمل نہیں کیا جاسکتا، البتہ جو شخص شیخ فانی ( انتہائی عمر رسیدہ ) ہو یا اس کو ایسی بیماری لگی ہوئی ہو کہ جس کے ہوتے ہوئے اس کے لیے روزہ رکھنا انتہائی مضر ہو، اور اس بیماری سے صحت یاب ہونے کی امید بھی نہ ہو، تو اس شخص کو روزہ رکھنے کی بجائے، فدیہ ( ہر ایک روزے کے بدلے ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھا نا کھلانے ) کی اجازت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 92)
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا o
الدر المختار مع رد المحتار: (فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، 427/2)
(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا۔۔۔
(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض۔۔۔۔۔ (قوله العاجز عن الصوم) أي عجزا مستمرا كما يأتي، أما لو لم يقدر عليه لشدة الحر كان له أن يفطر ويقضيه في الشتاء فتح (قوله ويفدي وجوبا) لأن عذره ليس بعرضي للزوال حتى يصير إلى القضاء فوجبت الفدية نهر، ثم عبارة الكنز وهو يفدي إشارة إلى أنه ليس على غيره الفداء لأن نحو المرض والسفر في عرضة الزوال فيجب القضاء وعند العجز بالموت تجب الوصية بالفدية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی