سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ تشریعی اور تکوینی احکام میں کیا فرق ہے؟ اور ایک بات یہ کہ جو لوگ خود کش دھماکے میں مرتے ہیں یا فائرنگ سے ہلاک ہوتے ہیں، کیا ان کی موت اِس طرح لکھی ہوتی ہے اور اگر اس طرح لکھی ہوتی ہے تو پھر دھماکہ وغیرہ کرنے والا گنہگار کیوں ہوتا ہے؟
جواب: احکام الٰہی دو طرح کے ہوتے ہیں:
۱) تشریعی احکام:جن میں ایک قانون بتلایا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا بتلادی جاتی ہے، مگر کرنے والے کو اس کی کسی جانب پر مجبور محض نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو ایک درجہ کا اختیار دیا جاتا ہے، وہ اپنے اختیار سے اس قانون کی پابندی کرے یا خلاف ورزی ، اور ایسے احکام عموماً ان مخلوقات پر عائد ہوئے ہیں جو ذوی العقول کہلاتے ہیں، جیسے: انسان اور جِنات یہیں سے ان میں مومن و کافر اور مطیع و نافرمان کی دو قسمیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
۲) تکوینی اور تقدیری احکام : ان کی تنفیذ جبری ہوتی ہے،کسی کی مجال نہیں کہ سرِمنہ ان کے خلاف کرسکے، ان احکام کی تعمیل کل مخلوقات جبرا کرتی ہے، ان میں انسان وجنات بھی داخل ہیں، تکوینی احکام میں ان کے لیے جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے، مؤمن ہو یا کافر، متقی ہو یا فاسق، سب کے سب اسی تقدیری قانون کے تابع چلنے پر مجبور ہیں۔(معارف القرآن مع آسان ترجمہ: سورة الانشقاق، 925/8، ط: ادارة المعارف)
اب آپ کا یہ سوال کہ جو لوگ خود کش دھماکہ میں مرتے ہیں یا فائرنگ سے ہلاک ہوتے ہیں، کیا ان کی موت اِسی طرح سے لکھی ہوتی ہے؟ اگر اس طرح لکھی ہوتی ہے تو پھر دھماکہ وغیرہ کرنے والا گنہگار کیوں ؟
جواب کو سمجھنے سے پہلے "مسئلہ تقدیر" سے متعلق چند باتیں سمجھنا ضروری ہے، چونکہ تقدیر کا مسئلہ ہمارے ایمانیات کا حصہ ہے، اور اکثر شیطان لوگوں کو اس بارے میں وسوسے ڈالتا ہے ، اس لئے اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔
پہلی بات: تقدیر کا عقیدہ قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ میں مذکور ہے، اور یہ حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تمام اہلِ حق کا متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لئے اس عقیدہ سے انکار کرنا یا اس کا مذاق اُڑانا اپنے دین و ایمان کا مذاق اُڑانا ہے۔
دوسری بات: اس مسئلے میں بحث سے اشکالات کا دروازہ کھلتا ہے، اسی لئے حضور ﷺ نے اس مسئلے میں بحث کرنے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، ہمیں بحث میں الجھے ہوئے دیکھ کر بہت غصے ہوئے، یہاں تک کہ چہرہٴ انور ایسا سرخ ہوگیا، گویا رخسارِ مبارک میں انار نچوڑ دیا گیا ہو اور بہت ہی تیز لہجے میں فرمایا:کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اس وقت ہلاک ہوئے، جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا، (لہذا)میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اس میں ہرگز نہ جھگڑنا۔(سنن الترمذی )
تیسری بات:مسئلہ تقدیر سمجھنے کے لئے عقلی دلائل:
مسئلہ تقدیر کے سلسلے میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ ہر بات پہلے سے لکھی ہوئی ہے، لیکن لکھا ہوا کیا ہے؟ یہ بات پہلے سے کسی کو نہیں پتہ، لہذا اگر ہمیں پہلے سے پتہ ہو مثلاً کہ ہماری تقدیر میں جھوٹ بولنا لکھا ہوا ہے اور پھر ہم جھوٹ بولیں اور قیامت میں اللہ رب تعالی اس پر سزا دیں تو ہم اللہ سے کہہ سکتے ہیں کہ یااللہ میری تقدیر میں جھوٹ بولنا لکھا ہوا تھا، اسی لئے میں نے جھوٹ بولا، تب تو یہ بات صحیح ہے، لیکن چونکہ ہمیں پہلے سے اس کا علم نہیں، اس لئے اللہ تعالی کہہ سکتا ہے کہ کیا تمہیں پہلے سے اس کا علم تھا کہ تمہاری تقدیر میں جھوٹ بولنا لکھا ہوا ہے؟ چنانچہ یہی آزمائش ہے، اسی لئے ہمیں نیکی پر اجر ملتا ہے اور گناہ پر پکڑ ہوتی ہے، ورنہ ہمیں نیکی پر بھی اجر نہیں ملنا چاہیئے کیونکہ پہلے سے ہمارے نصیب اور تقدیر میں نیکی کرنا لکھا ہوا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی زہر کھا کر مرجائے تو خودکشی اور حرام موت مرے گا، اب اگر اللہ تعالی اس سے پوچھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو وہ کہہ سکتا ہے کہ موت کا وقت تو پہلے سے اسی وقت لکھا ہوا تھا، میں نے اسی وقت مرنا تھا، اس پر اللہ تعالی کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو میں نے لکھا ہوا تھا، لیکن تمہیں اس کا علم نہیں دیا گیا تھا کہ اس وقت مرنا ہے۔
دوسری ایک اور مثال سے بات سمجھیے کہ زید نے بکر کا قتل کردیا اب بکر کے وارثین زید سے قصاص لینے پہنچے تو زید کہنے لگا کہ بھائی! ہر آدمی کی موت کا وقت مقرر ہے اور اس پر ہم سب کا ایمان ہے ، لہذا میں نے تو ایسا کام کیا جو ہونا ہی تھا اور اللہ تعالی نے لکھا ہوا تھا، اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے، اب آپ بتائیے کہ دنیا کا کوئی قانون زید کی یہ دلیل کہ وہ تقدیر کے آگے مجبور محض ہے، مانے گا؟ نہیں، بلکہ ہر قانون اسے سزا دے گا اور کہے گا کہ ٹھیک ہے کہ ہر آدمی کی موت کا وقت مقرر ہے، لیکن تمہیں اس کا علم کیسے ہوا کہ اس کی موت کا وقت آچکا ہے ، چنانچہ زید کو دنیا کے ہر قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔
چنانچہ تقدیر برحق ہے اور تقدیر کی وجہ سے کوئی معذور نہیں بن جاتا، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ گناہ میرے لئے حلال ہوگیا اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالی مجھے جہنم ہی میں کیوں ڈال رہا ہے، جبکہ ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی ہے۔
چوتھی بات: آخری اہم بات یہ ہے کہ تقدیر بنیادی طور پر" علم اللہ السابق" کا نام ہے، چونکہ اللہ تعالی ماضی ، مستقبل اور تمام چیزوں کا علم پہلے سے رکھتا ہے، لہذا اس کو پتہ ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں جائے گا؟ اللہ تعالی کے اسی علم کا نام"تقدیر" ہے۔
اس سے زیادہ باریکی میں تقدیر کے مسئلے میں جانا جائز نہیں ہے اور اللہ پاک ظالم نہیں کہ کسی جنتی کو جہنم میں پھینک دے اور کسی جہنمی کو جنت میں ڈال دے، بس یہ ایک آزمائش ہے کہ ہمیں اپنے انجام کا علم نہیں ہے، اس لئے نیک کام کرتے رہنا چاہیئے تاکہ جنت کے مستحق ہوجائیں اور جہنم سے بچ جائیں۔
امید ہے کہ ان گزارشات سے کافی حد تک بات سمجھنے میں آسانی ہوگئی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء فی التشدید فی القدر، 479/2، ط، مکتبة رحمانیة)
عن ابی ھریرۃ قال خرج علینا رسول اللہ ﷺ و نحن نتنازع فی القدر فغضب حتی احمر وجھہ حتی کانما فقیء فی وجنتیہ الرمّان ، فقال : أبھذا أمرتم ام بہذا أرسلت الیکم ؟ انما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا فی ھذا الامر ، عزمت علیکم عزمت علیکم الا تنازعوا فیہ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی