سوال:
حضرت صاحب ! سوال یہ پوچھنا ہے کہ میں کسی سے موبائل خریدتا ہوں اور وہ یہ نہیں بتاتا کہ اس میں کوئی مسئلہ ہے، حالانکہ اس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہو تو کیا اسکو اِس چیز کا گناہ ملے گا ؟
دوسرا یہ کہ اگر میں خرید لیتا ہوں اور کوئی مسئلہ میری نظر میں نہیں آتا، لیکن بعد میں پتا لگتا ہے کہ اِس موبائل میں مسئلہ ہے تو کیا میں بھی اسی طرح کسی کو بغیر بتائے فروخت کرسکتا ہوں ؟ کیونکہ بتانے سے کوئی نہیں لے گا اور میرا پورا پورا نقصان ہے تو اِس صورت میں، میں گنہگار ہوں گا ؟
رہنمائی فرمادیں۔ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ کوئی عیب دار چیز اس کا عیب بتائے بغیر فروخت کرنا دھوکہ ہے، اور دھوکہ دینا اسلام میں قبیح اور ناجائز ہے۔
حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی، اور خریدار پر اس کا عیب ظاہر نہیں کیا، تو اس پر ہمیشہ اللہ تعالی کا غضب رہے گا، اور اللہ تعالی کے فرشتے اس پر ہمیشہ لعنت کرتے رہیں گے۔
لہذا جس شخص سے آپ نے موبائل خریدا، اگر اس نے موبائل کی خرابی معلوم ہونے کے باوجود بغیر خرابی بتائے آپ کو فروخت کیا، تو وہ شخص گناہگار ہوگا، اور اگر آپ بھی اس کی خرابی بتائے بغیر آگے فروخت کریں گے تو آپ پر بھی گناہ لازم آئے گا، البتہ اگر آپ اسے فروخت کرتے وقت یوں کہہ دیں کہ میں اس کے ہر عیب سے بری ہوں، چاہو تو لے لو، ورنہ چھوڑ دو، تو اس صورت میں آپ بری الذمہ ہو جائیں گے، یا پھر آپ اپنی دکان کی کسی ایسی جگہ پر جہاں ہر گاہک کی نظر پڑے لکھ کر لگادیں کہ "موبائل لیتے وقت اچھی طرح تسلی کر لیں، بعد میں ہم کسی قسم کے عیب کے ذمہ دار نہیں ہوں گے" اس صورت میں آپ پر کسی قسم کا کوئی گناہ لازم نہیں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجۃ: (أبواب التجارات، باب من باع عیبًا فلیبینہ، رقم الحدیث: 2247)
عن واثلۃ بن الأسقع قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من باع عیبًا لم یبینہ لم یزل في مقت اللّٰہ ولم تزل الملائکۃ تلعنہ۔
الدر المختار مع رد المحتار: (باب خیار العیب، 218/7، ط: زکریا)
وصح البیع بشرط البراء ۃ من کل عیب بأن قال: بعتک ہذا العبد علی أني برئ من کل عیب۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی