سوال:
حکومت نے لیول کے اعتبار سے تنخواہیں مقرر کی ہوئی ہیں جو ادارے اس لیول سے کم تنخواہیں مقرر کرتے ہیں تو کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ایسے ملکی قوانین جو قرآن وسنت کی تعلیمات کے منافی نہ ہوں، اور ملک و ملت کی مصلت پر مبنی ہوں تو ایسے جائز قوانین پر عمل کرنا شرعا بھی لازم ہے۔ لہذا جن اداروں پر ملازمین کی کم از کم تنخواہ کے حکومتی قانون کا اطلاق ہوتا ہو، ان کے لیے اس قانون پر عمل کرنا شرعاً بھی لازم ہوگا۔ تاہم اگر کوئی ادارہ ملازم کے ساتھ اس کی رضامندی سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تنخواہ سے کم مقدار پر معاہدہ کرلیتا ہے تو ایسے معاہدہ کو فاسد نہیں کہا جاسکتا، لیکن ملکی جائز قانون کی خلاف ورزی سے بچنا بہرحال ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تکملة فتح الملهم: (323/3، ط: أشرفیه)
ان المسلم یجب علیه أن یطیع أمیرہ فی الأمور المباحة؛ فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرته، وإن نھی عن أمر مباح حرم ارتکابه؛ لأن اللہ سبحانه وتعالی قال: { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: 59]، فلو کان المراد من إطاعة أولی الأمر إطاعتھم فی الواجبات الشرعیة فحسب، لما کان ھناك داعٍ لاستقلالھم بالذکر فی ھذہ الآیة؛ لأن طاعتھم فی الواجبات الشرعیة لیست إطاعة أولی الأمر، وإنما ھو إطاعة الله ورسوله، فلما أفردھم الله سبحانه بالذکر ظھر أن المراد إطاعتھم فی الأمور المباحة. ومن ھنا صرح الفقھاء بأن طاعة الإمام فیما لیس بمعصیة واجبة.
درر الحكام: (1/57،المقالة الثانیة فی بیان قواعد الکلیة،ط. دار الجیل)
«(المادة ٥٨) :التصرف على الرغبة منوط بالمصلحة.هذه القاعدة مأخوذة من قاعدة " تصرف القاضي فيما له فعله من أموال الناس والأوقاف مقيد بالمصلحة " أي أن تصرف الراعي في أمور الرعية يجب أن يكون مبنيا على المصلحة، وما لم يكن كذلك لا يكون صحيحا. والرعية هنا: هي عموم الناس الذين هم تحت ولاية الولي.....والحاصل يجب أن يكون تصرف السلطان والقاضي والوالي والوصي والمتولي والولي مقرونا بالمصلحة وإلا فهو غير صحيح ولا جائز."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی