سوال:
اس حدیث کی تشریح فرمادیں کہ "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بدترین جھوٹ یہ ہے کہ انسان خواب میں ایسی چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے، جو اس کی آنکھوں نے نہ دیکھی ہو"۔
جواب: عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن من افرى الفرى ان يري عينيه ما لم تر".(بخاری، حدیث نمبر:7043)
ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”سب سے بدترین جھوٹ یہ ہے کہ انسان خواب میں ایسی چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس کی آنکھوں نے نہ دیکھی ہو۔“
حدیث کی تشریح:
حدیث کا مطلب یہ ہےکہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے خواب دیکھا ہے، حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہو، تو یہ بڑے جھوٹوں میں سے ایک بڑا جھوٹ ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا ہے، اس لیے کہ خواب دکھلانے کےلیے اللہ تعالی ہی فرشتے کو بھیجتے ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں طبری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کبھی بیداری میں جھوٹ بولنے کا فساد بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود جھوٹے خواب کو بڑا جھوٹ کہاگیا، کیونکہ یہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا ہے اور اللہ تعالی پر جھوٹ مخلوق پر جھوٹ باندھنے سے بڑا گناہ ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ۔ (سورة ھود آیت نمبر:18)
ترجمہ: اپنے رب کے سا منے پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا۔ سن لو ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔“
اور جھوٹا خواب گھڑنا، اس لیے بھی گناہ ہے کہ خواب نبوت کا ایک جز ہے، جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ورؤيا المسلم جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة۔( مسلم حدیث نمبر2270 )
ترجمہ :
مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
جو نبوت کے حصے ہیں، وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں، تو جھوٹا خواب گھڑنے والا گویا جھوٹا دعوی کرتا ہے کہ اس کو نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ملا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح الباری: (428/12، ط: دار المعرفة)
وَأَمَّا الْكَذِبُ عَلَى الْمَنَامِ فَقَالَ الطَّبَرِيُّ انما اشْتَدَّ فِيهِ الْوَعيد مَعَ أَنَّ الْكَذِبَ فِي الْيَقَظَةِ قَدْ يَكُونُ أَشَدَّ مَفْسَدَةً مِنْهُ إِذْ قَدْ تَكُونُ شَهَادَةً فِي قَتْلٍ أَوْ حَدٍّ أَوْ أَخْذِ مَالٍ لِأَنَّ الْكَذِبَ فِي الْمَنَامِ كَذِبٌ عَلَى اللَّهِ أَنَّهُ أَرَاهُ مَا لَمْ يَرَهُ وَالْكَذِبُ عَلَى اللَّهِ أَشَدُّ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى الْمَخْلُوقِينَ لِقَوْلِهِ تَعَالَى وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ الْآيَةَ وَإِنَّمَا كَانَ الْكَذِبُ فِي الْمَنَامِ كَذِبًا عَلَى اللَّهِ لِحَدِيثِ الرُّؤْيَا جُزْءٌ مِنَ النُّبُوَّةِ وَمَا كَانَ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ فَهُوَ مِنْ قِبَلِ اللَّهِ تَعَالَى انْتَهَى مُلَخَّصًا۔
مرقاة المفاتیح: (2934/7، ط: دار الفكر)
(الرَّجُلُ عَيْنَيْهِ مَا لَمْ تَرَيَا) أَيْ: شَيْئًا لَمْ تَرَ عَيْنَاهُ فِي النِّهَايَةِ أَيْ يَقُولُ: رَأَيْتُ فِي النَّوْمِ كَذَا، وَلَمْ يَكُنْ رَأَى شَيْئًا ; لِأَنَّهُ كَذِبٌ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّهُ هُوَ الَّذِي يُرْسِلُ مَلَكَ الرُّؤْيَا لِيُرِيَهُ الْمَنَامَ، قَالَ الطِّيبِيُّ: الْمُرَادُ بِإِرَاءِ الرَّجُلِ عَيْنَيْهِ وَصْفُهُمَا بِمَا لَيْسَ فِيهِمَا وَنِسْبَةُ الْكِذْبَاتِ إِلَى الْكَذِبِ لِلْمُبَالَغَةِ نَحْوَ قَوْلِهِمْ: لَيْلٌ أَلْيَلُ وَجَدَّ جِدُّهُ قَالَ السُّيُوطِيُّ: الْفِرْيَةُ الْكِذْبَةُ الْعَظِيمَةُ، وَجُعِلَ كَذِبُ الْمَنَامِ أَعْظَمَ مِنْ كَذِبِ الْيَقَظَةِ ; لِأَنَّهُ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَادَّعَى جُزْءًا مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ كَذِبًا. (رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ) : وَفِي الْجَامِعِ: ( «إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يُدْعَى الرَّجُلُ لِغَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ يُرِيَ عَيْنَيْهِ مَا لَمْ تَرَيَا، أَوْ يَقُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ مَا لَمْ يَقُلْ» ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ عَنْ وَاثِلَةَ، وَرَوَى أَحْمَدُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِلَفْظِ: " «إِنَّ مِنْ أَفْرَى الْفِرَى أَنْ يُرِيَ الرَّجُلُ عَيْنَيْهِ فِي الْمَنَامِ مَا لَمْ تَرَيَا» ".
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی