سوال:
مفتی صاحب ! السلام علیکم، کیا گھروں میں طوطے پالنا جائز ہے، جبکہ انکا پورا خیال رکھا جائے؟ لیکن اگر ایسا گھر ہو، جس میں دھوپ کی روشنی بھی نہ آتی ہو، صرف لائٹ کی روشنی ہو، تو کیا اس وجہ سے ہمیں گناہ ہوگا؟ اس بارے میں وضاحت فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ پرندوں کو چند شرائط کے ساتھ پالنا جائز ہے:
(1)ان کے پالنے میں کسی دوسرے شخص کو تکلیف نہ ہو۔
(2)ان کے ذریعے دوسروں کے مملوک پرندے پکڑنا مقصود نہ ہو۔
(3)ان کی خوراک کا انتظام کیا جائے۔
(4)ان کا پنجرہ اتنا بڑا ہو کہ اس میں ان کو اذیت نہ ہو۔
(5) ان کی تمام ضروریات کا مکمل خیال رکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (401/6، ط: دار الفکر)
قوله: يكره إمساك الحمامات إن كان يضر بالناس … وأما للاستئناس فمباح ( وأما للاستئناس فمباح ) قال في المجتبى رامزا لا بأس بحبس الطيور والدجاج في بيته ولكن يعلفها وهو خير من إرسالها في السكك اه وفي القنية رمزا حبس بلبلا في القفص وعلفها لا يجوز اه أقول لكن في فتاوى العلامة قارىء الهداية سئل هل يجوز حبس الطيور المفردة وهل يجوز عتقها وهل في ذلك ثواب وهل يجوز قتل الوطاويط لتلويثها حصر المسجد بخرئها الفاحش فأجاب يجوز حبسها للاستئناس بها وأما إعتاقها فليس فيه ثواب وقتل المؤذي منها ومن الدواب جائز اه قلت ولعل الكراهة في الحبس في القفص لأنه سجن وتعذيب دون غيره كما يؤخذ من مجموع ما ذكرنا وبه يحصل التوفيق فتأمل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی