resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: نمستے کی طرح ہاتھ جوڑ کر سلام کرنا، گھٹنوں کو ہاتھ لگانا یا جھک کر سلام کرنا (30141-No)

سوال: ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ جب ملاقات کرتے ہیں تو "نمستے" کی طرح ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے ہیں، جو ہندو روایت سے مشابہ ہے۔ بعض لوگ احترام کے طور پر کسی بزرگ کے گھٹنوں کو چھوتے ہیں، اور کچھ لوگ سر جھکا کر بزرگ کے ہاتھ کو چومتے ہیں۔ کیا یہ سب افعال اسلام میں جائز ہیں؟ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔یہ عمل خاص طور پر اندرونِ سندھ کے رہائشی افراد اپناتے ہیں۔

جواب: نمستے کرنے کی طرح ہاتھ جوڑ کر سلام کرنا ہندوؤں کا طریقہ ہے، اسلام میں سلام کا اصل طریقہ یہ ہے کہ منہ سے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہا جائے، اور اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو مصافحہ بھی کرلیا جائے جو كہ سلام کی تکمیل ہے، یہی عمل سنت ہے، اور اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
اسی طرح گھٹنوں پر ہاتھ لگانا بھی درست طرز عمل نہیں ہے، قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے طرز عمل سے ثابت نہیں ہے، البتہ محبت اور ادب کی وجہ سے بزرگوں کے ہاتھ چومنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بعض حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں کو چومنا ثابت ہے۔
بزرگوں اور والدین وغیرہ سے جھک کر ملنا جائز ہے، بشرطیکہ رکوع کی حد تک جھکاؤ نہ ہو، اور اگر کسی بزرگ کے ہاتھوں کو ان کے علم و تقوی زہد اور نیکی کی وجہ سے چوما جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن کسی کے مالدار ہونے کی وجہ سے یا کسی دنیوی جاہ اور شہرت کی وجہ سے کسی کے ہاتھوں کو چومنا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داود: (رقم الحديث: 5223، 510/7، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا يزيد بن أبي زياد، أن عبد الرحمن بن أبي ليلى حدثه أن عبد الله بن عمر حدثه، وذكر قصة، قال: فدنونا -يعني من النبي - صلى الله عليه وسلم -- فقبلنا يده»

مرقاة المفاتيح: (2965/7، ط: دار الفكر)
«(وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رجل: يا رسول الله! الرجل منا) أي: من المسلمين، أو من العرب (يلقى أخاه) أي: المسلم أو أحدا من قومه، فإنه يقال له أخو العرب (أو صديقه) أي: حبيبه وهو أخص مما قبله (أينحني له؟) : من الانحناء، وهو ‌إمالة ‌الرأس والظهر تواضعا وخدمة (قال: لا) أي: فإنه في معنى الركوع، وهو كالسجود من عبادة الله سبحانه (قال: أفيلتزمه) أي: يعتنقه ويقبله (قال: لا) : استدل بهذا الحديث من كره المعانقة والتقبيل، وقيل: لا يكره التقبيل لزهد، وعلم، وكبر سن، قال النووي: تقبيل يد الغير إن كان لعلمه وصيانته وزهده وديانته، ونحو ذلك من الأمور الدينية لم يكره، بل يستحب، وإن كان لغناه أو جاهه في دنياه كره وقيل حرام. اه.
وقيل: الحرام ما كان على وجه التملق والتعظيم، وأما المأذون فيه فعند التوديع والقدوم من السفر وطول العهد بالصاحب، وشدة الحب في الله مع أمن النفس، وقيل: لا يقبل الفم، بل اليد والجبهة. وفي شرح مسلم للنووي: حتى الظهر مكروه للحديث الصحيح في النهي عنه، ولا تعتبر كثرة من يفعله ممن ينسب إلى علم وصلاح. المعانقة وتقبيل الوجه لغير القادم من سفر ونحوه مكروهان. صرح به البغوي وغيره للحديث الصحيح في النهي عنهما كراهة تنزيه»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals