سوال:
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے والدین کے ایمان کے بارے میں مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاپیے؟
جواب: حضور اکرمﷺ کے والدین کریمین کے ایمان و عدم ایمان کے بارے میں علماۓ کرام کے تین مسالک ہیں:
پہلامسلک: آپ ﷺ کے والدین زمانہ فترت میں انتقال کرگئے تھے اور ان کے نزدیک جو لوگ زمانہ فترت میں صریح شرک اور بت پرستی سے دور رہے، یہ بات ان کی آخرت میں نجات کے لیے کافی ہوگی۔
دوسرا مسلک:حضور اکرمﷺ کے والدین کا دامن کبھی شرک و کفر سے داغ دار نہیں ہوا، وہ اپنی تمام زندگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر رہے۔
تیسرا مسلک:آپ ﷺ کے والدین کو ان کی وفات کے بعد زندہ کیا گیا تھا اور پھر وہ آ پ ﷺ پرایمان لائے تھے۔(التفصیل فی الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد:٨/١٦٨، ط: داراحیاء التراث العربی)
محتاط قول: علامہ شامی نے اس مسئلہ پر تفصیلا کلام کرنے کے بعد آخر میں خلاصہ لکھا ہے: "جیسا کہ بعض محققین نے کہا ہے کہ اس مسئلہ کو حد درجہ ادب کے بغیر ذکر کرنا ہی مناسب نہیں ہےاور یہ ان مسائل میں سے نہیں ہیں کہ جن سے ناواقفیت نقصان کا باعث ہو یا جن کے بارے میں قبر یا حشر میں پوچھ گچھ ہوگی، پس اپنی زبان کو اس مسئلہ میں بات کرنے سے روکنا ہی بہتر ہے"۔
خلاصہ کلام: اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی اور تحقیقی بات یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں "توقف" کرنا چاہیے، کیونکہ یہ مسئلہ عقائدِ اسلام میں سے نہیں ہے، نہ ہی عمل سے اس کا کوئی تعلق ہے، لہذاہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی چیزوں میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں، جن میں ہمارے لیے دنیا یا آخرت کا کوئی فائدہ ہو، نیز اس مسئلے میں ”بحث“ کرنے سے بسا اوقات ایسی بات بھی زبان یا قلم پر آسکتی ہے جو خلافِ ادب ہو، اس لیے اس مسئلے میں توقف اور خاموشی ہی بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الشامیة: (کتاب النکاح، باب نكاح الكافر، مطلب في الكلام على أبوي النبي صلى الله عليه وسلم،3/ 184)
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی