سوال:
السلام علیکم ،
مفتی صاحب ! اگر کسی عورت کاشوہر وفات پا جائے یا اسے طلاق دے دے،تو کیا دوران عدت کسی عذر کی وجہ سے اس عورت کا اپنے گھر سے باہر نکلنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت کیلئے بغیر کسی عذر شرعی کے گھر سے نکلنا(چاہے دن ہو یا رات)جائز نہیں، البتہ اگر کوئی شرعی ضرورت در پیش ہو، مثلاً سخت بیمار ہو، تو ڈاکٹر وغیرہ کو دکھانے کے لئے جاسکتی ہے، اسی طرح اگر عدت وفات میں بیٹھی ہوئی عورت کے پاس گزر بسر کے لیے کوئی انتظام نہ ہو، تو کسب معاش کی غرض سے دن کے وقت نکلنے کی گنجائش ہے، لیکن رات بہرحال گھر میں آکر گزارے، جبکہ عدت طلاق میں بیٹھی ہوئی عورت کو کسب معاش کیلئے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ مطلقہ کا خرچہ عدت کے دوران شوہر کے ذمہ لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (536/3)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".
و فیہ ایضاً: (180/5، ط: دار الکتاب)
ومعتدة موت تخرج في الجدیدین وتبیت أکثر اللیل في منزلہا؛ لأن نفقتہا علیہا فتحتاج للخروج
الفتاوی الھندیہ: (الباب السابع عشر في النفقات، 557/1)
المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعياً أو بائناً، أو ثلاثاً حاملاً كانت المرأة، أو لم تكن، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘.
البحر الرائق: (166/4، ط: دار المعرفة)
(قوله: ومعتدة الموت تخرج يوماً وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها، حتى لو كان عندهاكفايتها صارتكالمطلقة؛ فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلاً ولا نهاراً. والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة، فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لايحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها، كذا في فتح القدير".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی