سوال:
مفتی صاحب ! میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔
یہ تفصیل سمجھا دیجیےکہ ان کے کپڑے، شوز، سویٹرس وغیرہ کا کیا کرنا چاہیے؟
ہم 4 بھائی اور ایک بہن ہے اور الحمداللہ والدہ بھی حیات ہیں۔
جواب: صورت مسئلہ میں آپ کے والد کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے وصیت کی ہو، تو ایک تہائی میں وصیت نافذ کرنے کے بعد والد صاحب کے تمام متروکہ سامان کو بہتر (72) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے آپ کی والدہ کو نو (9) آپ کے ہر ایک بھائی کو چودہ (14) اور آپ کی بہن کو سات (7) حصے ملیں گے۔
البتہ مشورہ کے طور پر عرض کیا جاتا ہیکہ اگر ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں جن کی تقسیم کرنا مشکل ہے، تمام ورثاء کی دلی اجازت سے کسی ایک وارث کو دیدیں یا کسی غریب کو صدقہ میں دیدی جائیں یا کسی نیک آدمی کو ھدیہ کردی جائیں، تو اس کا ثواب مرحوم کو بھی ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11)
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ۔۔۔الخ
الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی