سوال:
مفتی صاحب! ہول سیل ڈیلر دُکاندار کو مال دیتا ہے اور دُکاندار کہتا ہے کہ جو مال فروخت نہ ہوا وہ آپ کو واپس کر دوں گا، ڈیلر یہ بات قبول کر لیتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟
جواب: واضح رہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت عقد میں ایسی شرط لگانا جس میں بیچنے یا خریدنے والے کا نفع ہو، لیکن اس کا عرف میں تعامل ہو، جس کی وجہ سے معاملہ مفضی الی النزاع نہ ہو تو ایسی شرط سے بیع فاسد نہیں ہوگی۔
لہذا مذکورہ صورت میں دُکاندار کا عقد بیع میں یہ شرط لگانا کہ جو مال فروخت نہ ہو واپس کردوں گا، یہ شرط چونکہ عُرف میں مستعمل ہے اور آج کل اس پر تعامل ہےاور یہ صورت مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے، اس لیے اس طرح کی شرط بیع میں لگانا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (في الشرط الفاسد،474/1، ط: معارف القرآن کراچی)
خلاصة مذهب الحنفية: أنه إن كان المشروط في البيع شرطا يقتضيه العقد، أو يلائمُ العقد، أو شرطًا جرى به العرفُ فيما بين النّاس، فهو جائز، ولا يفسد به البيع......وأما الشروط الأخرى التي لا تدخل في واحدٍ من هذه الثلاثة، فإن كان فيها منفعة لأحد العاقدين، أو للمعقود عليه، فانها فاسدة.
البحر الرائق: (باب البیع الفاسد، 144/6، ط: رشیدیة)
(ﻗﻮﻟﻪ ﻭﺻﺢ ﺑﻴﻊ ﻧﻌﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻳﺤﺬﻭﻩ، ﻭﻳﺸﺮﻛﻪ، ﻭاﻟﻘﻴﺎﺱ ﻓﺴﺎﺩﻩ) ﻟﻤﺎ ﻓﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﻨﻔﻊ ﻟﻠﻤﺸﺘﺮﻱ ﻣﻊ ﻛﻮﻥ اﻟﻌﻘﺪ ﻻ ﻳﻘﺘﻀﻴﻪ، ﻭﻣﺎ ﺫﻛﺮﻩ ﺟﻮاﺏ اﻻﺳﺘﺤﺴﺎﻥ ﻟﻠﺘﻌﺎﻣﻞ.
نجم الفتاویٰ: (کتاب البیوع،145/7،ط: یاسین القرآن)
مأخذ التبویب دارالعلوم کراتشی: رقم الفتوی: (98/1800)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی