resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: خریدار کو گاڑی کا عیب (defect) بتائے بغیر فروخت کرنا

(31149-No)

سوال: میں کاریں خریدتا اور بیچتا ہوں، بعض اوقات کار کو بڑا حادثہ ہوتا ہے تو کیا مجھے یہ بات ممکنہ خریداروں کو بتانے کی ضرورت ہے یا انہیں خود ہی دیکھنے دیں، اور اگر وہ مجھ سے پوچھیں تو میں بتاتا ہوں، اگر وہ نہیں پوچھتے تو میں نہیں بتاتا تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب: اگر گاڑی میں ایسی خرابی جو تاجروں کے عرف میں عیب (defect) شمار ہوتا ہو تو اس صورت میں خریدار کو وہ عیب بتائے بغیر فروخت کرنا دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر آپ یہ واضح طور پر کہہ دیں کہ آپ اپنی تسلّی خود کر لیں، بعد میں ہم کسی عیب کے ذمّہ دار نہیں ہوں گے تو اس کی بھی گنجائش ہے، خرید و فروخت کا معاملہ درست ہوجائے گا، تاہم ایسا عیب بتانا بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن ابن ماجة: (أبواب التجارات، باب من باع عیبًا فلیبینه، رقم الحدیث: 2247)
عن واثلة بن الأسقع قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یقول: من باع عیبًا لم یبینه لم یزل في مقت اللّٰه ولم تزل الملائکۃ تلعنه۔

مؤطا امام محمد: (ص: 273، ط: المکتبة العلمیة)
"قال محمد: بلغنا عن زيد بن ثابت أنه قال: من باع غلاما بالبراءة فهو بريء من كل عيب، وكذلك باع عبد الله بن عمر بالبراءة، ورآها براءة جائزة"

الدر المختار مع رد المحتار: (47/5)
لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام...(قوله: لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان، وإن لم يبين قال بعض مشايخنا: يفسق وترد شهادته، قال الصدر: لا نأخذ به. اه. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اه قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل، فكيف يكون صغيرة؟ بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة، وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر.

الدر المختار مع رد المحتار: (باب خیار العیب، 218/7، ط: زکریا)
وصح البیع بشرط البراء ۃ من کل عیب بأن قال: بعتک ہذا العبد علی أني برئ من کل عیب

تسھیل بھشتی زیور: (172/2، مکتبة الحجاز کراچی)
بیچتے وقت کسی نے کہہ دیا کہ خوب دیکھ بھال کر لے لو،اگر بعد میں کوئی عیب نکلے یا خراب ہوتو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا،اس طرح کہنے کے بعد بھی اس نے لے لیا تو اب چاہے جتنے عیب اس میں نکلیں اس کو واپس کرنے کا اختیار نہیں اور اس طرح بیچنا بھی درست ہے۔اتنی وضاحت کر دینے کے بعد عیب بتانا بھی واجب نہیں۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial