سوال:
مختلف کمپنیوں (کارپوریٹ اداروں) میں مختلف ملازمین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جاتا ہے کہ پیشگی اطلاع کے بغیر اگر کوئی ملازمت ختم کرے گا تو اس کو آخری مہینے کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ اسی طرح اگر کمپنی کے ذمے کوئی بونس وغیرہ ہو تو وہ بھی کمپنی ضبط کر لے گی اور ملازمت کے عہد میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں اور تمام ملازمین اس پر دستخط بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سوالات یہ ہیں کہ:
1) ملازم کا اس معاہدے کی رو سے پیشگی اطلاع دیے بغیر ملازمت چھوڑنا کیسا ہے؟
2) مذکورہ صورت میں اپنی تنخواہ کے مطالبے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟
3) کسی کمپنی ادارے کا ایسا کرنا درست ہے؟ تنخواہ کے علاوہ مزید بونس وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
4) اگر کمپنی کا نقصان ہو رہا ہو تو کس حد تک تلافی کی گنجائش ہے؟
5) کمپنی اگر معاہدہ نہ کریے تو اسے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ ملازم بغیر اطلاع کے چھوڑ دے تو اس کا نقصان ہو سکتا ہے؟ 6) اس کی وجہ سے کاموں میں تاخیر ہو سکتی ہے، اگر اس طرح درست نہیں ہے تو اس کی متبادل کیا صورت ممکن ہے ؟ براہ مہربانی تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
نوٹ: نوٹس پیریڈ یعنی پیشگی اطلاع کی مدت ایک، دو، تین مہینے ہوتی ہے۔
جواب: 1-2) ملازمت کے معاہدہ میں ملازمت چھوڑنے کی صورت میں پیشگی اطلاع دینے (Notice Period) کی شرط رکھنا شرعاً درست ہے، لہذا اگر ملازم نے معاہدے میں یہ شرط تسلیم کرلی ہو کہ ملازمت چھوڑنے سے پہلے ایک ماہ یا مقررہ مدت کا نوٹس دے گا تو اس کے بعد بغیر اطلاع کے ملازمت چھوڑنا شرعاً خلافِ وعدہ اور اخلاقاً معیوب ہے۔ حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ پیشگی اطلاع دیے بغیر ملازمت چھوڑنے کی صورت میں اس مہینے کی مکمل تنخواہ ضبط کرنے کی شرط لگانا شرعاً درست نہیں ہے، بلکہ اس مہینے میں ملازم نے جتنے دن کام کیا، ان دنوں کی تنخواہ کا وہ حق دار ہے، لہذا وہ ان دنوں کی تنخواہ کا مطالبہ کرسکتا ہے، کمپنی کے لیے اسے ضبط کرنا مالی جرمانہ (تعزیر بالمال) ہونے کی وجہ سے شرعاً درست نہیں ہے۔
3) جہاں تک بونس (Bonus) روکنے کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ بونس پورا سال کام کرنے کے ساتھ مشروط تھا تو پھر ایسی صورت میں چونکہ اس نے پورا سال کام نہیں کیا، اس لیے ایسا بونس ضبط کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر بونس کسی مخصوص کام/ٹارگٹ پورا کرنے کے ساتھ مشروط ہو اور ملازم نے وہ ٹارگٹ پورا کرلیا ہو تو اب محض پیشگی اطلاع نہ دینے کی وجہ سے ایسا بونس روکنا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔
4) اگر واقعی ملازم کے پیشگی اطلاع کے بغیر ملازمت چھوڑنے کی وجہ سے کمپنی کا کوئی حقیقی، مادّی یا تجارتی نقصان ہوا ہو، جیسے؛ بغیر اطلاع چھوڑنے کی وجہ سے کسی کام میں خلل واقع ہوا اور اس کی وجہ سے کمپنی کو کوئی جرمانہ ہوا ہو تو یہ چونکہ حقیقی نقصان ہے، اس نقصان کے بقدر کمپنی ملازم کی تنخواہ یا بونس میں سے تلافی کرستی ہے، لیکن مبہم یا متوقّع (expected) نقصان کے بدلے کوئی کٹوتی کرنا شرعاً درست نہیں ہوگا۔
5) کمپنی کو اگر یہ خدشہ ہو کہ ملازم کے پیشگی اطلاع دیے بغیر ملازمت چھوڑنے کی وجہ سے کمپنی کے کاموں میں نقصان یا خلل واقع ہوسکتا ہے تو ایسی صورت میں کمپنی صوابدیدی بونس اور الاؤنس (allowance) جو سال مکمل کرنے کے ساتھ مشروط ہوں، اور کسی مخصوص کام کے ساتھ مشروط نہ ہوں، ایسا بونس اور الاؤنس وغیرہ روک سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الآیة: 1)
یا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ....الخ
صحیح البخاري: (باب علامة المنافق، رقم الحدیث: 33)
"عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰه تعالیٰ عنه عن النبي صلی اللّٰہ علیه وسلم قال: آیة المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان"
مشکاۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، ص: 255)
"عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمه رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال إمرء إلا بطیب نفس منه.
إعلاء السنن: (باب التعزیر بالمال، 733/1)
التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندهما وعند الأئمة الثلاثۃ لایجوز، وترکه الجمهور للقرآن والسنة: وأما القرآن فقوله تعالی :{فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنة فإنه علیه السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنه خبر یدفعه الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استهلك شیئاً لم یغرم إلا مثله أو قیمته
فقه البیوع: (113/1، ط: معارف القرآن)
"لا یجوز ان یحمل المتخلف عن الوعد تعویضا الا بمقدار الخسارة الفعلية التی اصیب به الطرف الآخر مثل ان یضطر البائع الی بیع المبیع باقل من سعر تکلفته. والله سبحانه وتعالی اعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی