resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: طواف کے بعد واجب دو رکعت کا تاخیر سے ادا کرنے کا حکم (31165-No)

سوال: مفتی صاحب! میں اس سال عمرہ پر گئی ہوئی تھی، ایک دن عمرہ کے طواف سے عصر کے بعد فارغ ہوئی تو طواف کے واجب نفل نہیں پڑھے اور صفا مروہ کی سعی کے بعد بال کٹوالیے، پھر مجھے کسی نے یاد دلایا کہ نفل تو پڑھے نہیں ہیں تو میں نے بال کاٹنے کے بعد نفل ادا کرلیے تھے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس تاخیر کی وجہ سے مجھ پر دم وغیرہ تو واجب نہیں ہوا؟

جواب: واضح رہے کہ طواف کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنا واجب ہے اور اس میں بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر کسی وجہ سے ان کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے تو اس کی وجہ سے دم لازم نہیں ہوتا، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ پر اس تاخیر کی وجہ سے کسی قسم کا دم لازم نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

حاشية ابن عابدين: 2/ 498،499،ط: سعید)
(ثم صلى شفعا)في وقت مباح (يجب) بالجيم على الصحيح (بعد كل أسبوع عند المقام) حجارة ظهر فيها أثر قدمي الخليل (أو غيره من المسجد)
(قوله ثم صلى شفعا) أي ركعتين يقرأ فيهما الكافرون والإخلاص۔۔۔(قوله في وقت مباح) قيد للصلاة فقط فتكره في وقت الكراهة بخلاف الطواف، والسنة الموالاة بينهما وبين الطواف، فيكره تأخيرها عنه إلا في وقت مكروه ولو طاف بعد العصر يصلي المغرب، ثم ركعتي الطواف، ثم سنة المغرب۔

البحرالرائق: (2/ 356،ط:دار الكتاب الإسلامي)
ويكره تأخيرها عن الطواف إلا في وقت مكروه أي؛ لأن الموالاة سنة، ولو طاف بعد العصر يصلي المغرب، ثم ركعتي الطواف، ثم سنة المغرب، ولا تصلى إلا في وقت مباح.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Hajj (Pilgrimage) & Umrah